حدثنا سريج ، حدثنا المعافى ، حدثنا مغيرة بن زياد ، عن عبادة بن نسي ، عن الاسود بن ثعلبة ، عن عبادة بن الصامت ، قال: اتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا مريض في ناس من الانصار يعودوني، فقال: " هل تدرون ما الشهيد؟" فسكتوا، فقال:" هل تدرون ما الشهيد؟" فسكتوا، قال:" هل تدرون ما الشهيد؟" فقلت لامراتي: اسنديني، فاسندتني، فقلت: من اسلم، ثم هاجر، ثم قتل في سبيل الله، فهو شهيد , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن شهداء امتي إذا لقليل، القتل في سبيل الله شهادة، والبطن شهادة، والغرق شهادة، والنفساء شهادة" .حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا الْمُعَافَى ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضٌ فِي نَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ يَعُودُونِي، فَقَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّهِيدُ؟" فَسَكَتُوا، فَقَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّهِيدُ؟" فَسَكَتُوا، قَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ مَا الشَّهِيدُ؟" فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: أَسْنِدِينِي، فَأَسْنَدَتْنِي، فَقُلْتُ: مَنْ أَسْلَمَ، ثُمَّ هَاجَرَ، ثُمَّ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُوَ شَهِيدٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ، الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ شَهَادَةٌ، وَالْبَطْنُ شَهَادَةٌ، وَالْغَرَقُ شَهَادَةٌ، وَالنُّفَسَاءُ شَهَادَةٌ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بیمار تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ انصاری لوگوں کے ساتھ میری عیادت کے لئے تشریف لائے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ شہید کون ہوتا ہے؟ لوگ خاموش رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ سوال کیا لوگ پھر خاموش رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے سہارا دے کر بٹھا دو اس نے ایسا ہی کیا اور میں نے عرض کیا جو شخص اسلام لائے ہجرت کرے پھر اللہ کے راستہ میں شہید ہوجائے تو وہ شہید ہوتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح تو میری امت کے شہداء بہت تھوڑے رہ جائیں گے اللہ کے راستے میں مارا جانا بھی شہادت ہے پیٹ کی بیماری میں مرنا بھی شہادت ہے غرق ہو کر مرجانا بھی شہادت ہے اور نفاس کی حالت میں عورت کا مرجانا بھی شہادت ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، الأسود بن ثعلبة مجهول، لكنه توبع
حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا قتادة , وحميد , عن الحسن ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن عبادة بن الصامت , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان" إذا نزل عليه الوحي كرب له وتربد وجهه، وإذا سري عنه، قال: خذوا عني، خذوا عني ثلاث مرار قد جعل الله لهن سبيلا، الثيب بالثيب، والبكر بالبكر، الثيب جلد مائة والرجم، والبكر جلد مائة ونفي سنة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ , وَحُمَيْدٌ , عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ كَرَبَ لَهُ وَتَرَبَّدَ وَجْهُهُ، وَإِذَا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ: خُذُوا عَنِّي، خُذُوا عَنِّي ثَلَاثَ مِرَارٍ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ، الثَّيِّبُ جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ، وَالْبِكْرُ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ" .
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف ہوتی تھی اور روئے انور پر اس کے آثار نظر آتے تھے ایک مرتبہ یہ کیفیت دور ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے یہ بات حاصل کرلو مجھ سے یہ بات حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راستہ متعین کردیا ہے کہ اگر کوئی کنوارہ لڑکا کنواری لڑکی کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں اور رجم بھی کیا جائے۔
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا محمد بن مطرف ، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن عبد الله الصنابحي ، قال: زعم ابو محمد ان الوتر واجب! فقال عبادة بن الصامت : كذب ابو محمد، اشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " خمس صلوات افترضهن الله على عباده، من احسن وضوءهن، وصلاتهن لوقتهن، فاتم ركوعهن وسجودهن وخشوعهن، كان له عند الله عهد ان يغفر له، ومن لم يفعل، فليس له عند الله عهد، إن شاء غفر له، وإن شاء عذبه" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ ، قَالَ: زَعَمَ أَبُو مُحَمَّدٍ أَنَّ الْوَتْرَ وَاجِبٌ! فَقَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ : كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ عَلَى عِبَادِهِ، مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ، وَصَلَاتَهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ، فَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَسُجُودَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ، كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ، فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ، وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ" .
مخدجی " جن کا تعلق بنو کنانہ سے تھا کہتے ہیں کہ شام میں ایک انصاری آدمی تھا جس کی کنیت ابو محمد تھی اس کا یہ کہنا تھا کہ وتر واجب (فرض) ہیں وہ " مخدجی " حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابو محمد وتر کو واجب قرار دیتے ہیں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابو محمد سے غلطی ہوئی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کردی ہیں جو شخص انہیں اس طرح ادا کرے کہ ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہ کرے اور ان میں کا حق معمولی نہ سمجھے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جو انہیں اس طرح ادا نہ کرے تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف فرما دے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، عبدالله الصنابحي هو أبو عبدالله الصنابحي على الراجح
حدثنا حدثنا ابو العلاء الحسن بن سوار ، حدثنا ليث ، عن معاوية ، عن ايوب بن زياد ، حدثني عبادة بن الوليد بن عبادة ، حدثني ابي , قال: دخلت على عبادة وهو مريض اتخايل فيه الموت، فقلت: يا ابتاه، اوصني واجتهد لي , فقال: اجلسوني فلما اجلسوه، قال: يا بني، إنك لن تطعم طعم الإيمان، ولن تبلغ حق حقيقة العلم بالله تبارك وتعالى، حتى تؤمن بالقدر خيره وشره قال: قلت: يا ابتاه، فكيف لي ان اعلم ما خير القدر وشره؟ قال: تعلم ان ما اخطاك لم يكن ليصيبك، وما اصابك لم يكن ليخطئك، يا بني إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن اول ما خلق الله تبارك وتعالى القلم، ثم قال: اكتب، فجرى في تلك الساعة بما هو كائن إلى يوم القيامة" ، يا بني إن مت ولست على ذلك، دخلت النار.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ زِيَادٍ ، حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عُبَادَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ أَتَخَايَلُ فِيهِ الْمَوْتَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَتَاهُ، أَوْصِنِي وَاجْتَهِدْ لِي , فَقَالَ: أَجْلِسُونِي فَلَمَّا أَجْلَسُوه، قَالَ: يَا بُنَيَّ، إِنَّكَ لَنْ تَطْعَمَ طَعْمَ الْإِيمَانِ، وَلَنْ تَبْلُغْ حَقَّ حَقِيقَةِ الْعِلْمِ بِاللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَتَاهُ، فَكَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ مَا خَيْرُ الْقَدَرِ وَشَرُّهُ؟ قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَمَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْقَلَمُ، ثُمَّ قَالَ: اكْتُبْ، فَجَرَى فِي تِلْكَ السَّاعَةِ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ" ، يَا بُنَيَّ إِنْ مِتَّ وَلَسْتَ عَلَى ذَلِكَ، دَخَلْتَ النَّارَ.
ولید بن عبادہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ (اپنے والد) حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا وہ اس وقت بیمار تھے اور میں سمجھتا تھا کہ یہ ان کا مرض الوفات ہے میں نے ان سے عرض کیا اباجان! مجھے چھان پھٹک کر کوئی وصیت کر دیجئے انہوں نے فرمایا مجھے اٹھا کر بٹھا دو جب انہیں اٹھا کر بٹھا دیا گیا تو فرمایا بیٹا! تم اس وقت تک ایمان کا ذائقہ نہیں چکھ سکتے اور علم باللہ کی حقیقت نہیں جان سکتے جب تک تم اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہونے پر ایمان نہ لاؤ میں نے عرض کیا اباجان! مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ تقدیر کا کون سا فیصلہ میرے حق میں اچھا ہے اور کون سا برا؟ فرمایا تم اس بات کا یقین رکھو کہ جو چیز تم سے چوک گئی وہ تمہیں پیش آسکتی تھی اور جو پیش آگئی وہ چوک نہیں سکتی تھی بیٹا! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ چنانچہ اس نے قیامت تک ہونے والے واقعات کو لکھ دیا بیٹا! اگر تم مرتے وقت اس عقیدے پر نہ ہوئے تو تم جہنم میں داخل ہو گے۔
حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن الحارث بن يزيد ، عن علي بن رباح ، ان رجلا , سمع عبادة بن الصامت ، يقول: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر رضي الله عنه قوموا نستغيث برسول الله صلى الله عليه وسلم من هذا المنافق، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يقام لي، إنما يقام لله تبارك وتعالى" .حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، أَنَّ رَجُلًا , سَمِعَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ ، يَقُولُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُومُوا نَسْتَغِيثُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُقَامُ لِي، إِنَّمَا يُقَامُ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کھڑے ہوجاؤ، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس منافق کے متعلق فریاد کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے کھڑا ہونے سے بچا جائے کھڑا ہونا تو اللہ کے لئے ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبن لهيعة، ولإبهام الراوي عن عبادة
حدثنا حدثنا موسى بن داود ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن ابي حبيب ، ان الوليد بن عبادة بن الصامت ، قال: اوصاني ابي رحمه الله تعالى، فقال: يا بني , اوصيك ان تؤمن بالقدر خيره وشره، فإنك إن لم تؤمن ادخلك الله تبارك وتعالى النار قال: وسمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" اول ما خلق الله تبارك وتعالى القلم، ثم قال له: اكتب , قال: وما اكتب؟ قال: القدر , قال: فاكتب ما يكون، وما هو كائن إلى ان تقوم الساعة" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَة ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: أَوْصَانِي أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ , أُوصِيكَ أَنْ تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُؤْمِنْ أَدْخَلَكَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى النَّارَ قَالَ: وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْقَلَمُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: اكْتُبْ , قَالَ: وَمَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: القَدَرَ , قَالَ: فَاكْتُبْ مَا يَكُونُ، وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ" .
ولید بن عبادہ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے مجھے وصیت کرتے ہوئے فرمایا میں تمہیں ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان لانے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ تم تقدیر پر ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ تمہیں جہنم میں داخل کر دے گا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا لکھ چنانچہ اس نے قیامت تک ہونے والے واقعات کو لکھ دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
عبداللہ بن عباد زرقی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ بئر ہاب نامی اپنے کنویں پر چڑیوں کا شکار کر رہے تھے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ لیا، اس وقت میں نے کچھ چڑیاں پکڑ رکھی تھیں انہوں نے وہ میرے ہاتھ سے چھین کر چھوڑ دیں اور فرمایا بیٹا! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے دونوں کناروں کی درمیانی جگہ کو اسی طرح حرم قرار دیا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کو قرار دیا تھا۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، يعلى ابن عبدالرحمن مجهول، وعبدالله بن عباد - وفي مواضع: ابن عبادة - مجهول أيضاً
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روئے زمین پر مرنے والا کوئی انسان پروردگار کے یہاں جس کے متعلق اچھا فیصلہ ہو ایسا نہیں ہے جو تمہارے پاس واپس آنے کو اچھا سمجھے سوائے اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والے کے کہ وہ دنیا میں دوبارہ آنے کی تمنا رکھتا ہے تاکہ دوبارہ شہادت حاصل کرلے۔
حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا ليث ، عن ابن عجلان ، عن محمد بن يحيى بن حبان ، عن ابن محيريز ، عن الصنابحي ، انه قال: دخلت على عبادة بن الصامت وهو في الموت فبكيت، فقال: مهلا لم تبكي؟ فوالله لئن استشهدت لاشهدن لك، ولئن شفعت لاشفعن لك، ولئن استطعت لانفعنك، ثم قال: والله ما حديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم لكم فيه خير إلا حدثتكموه، إلا حديثا واحدا سوف احدثكموه اليوم، وقد احيط بنفسي، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من شهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، حرم على النار" , حدثنا قتيبة مثله، قال:" حرم الله تبارك وتعالى عليه النار".حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ ، عَنِ الصُّنَابِحِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ فَبَكَيْتُ، فَقَالَ: مَهْلًا لِمَ تَبْكِي؟ فَوَاللَّهِ لَئِنْ اسْتُشْهِدْتُ لَأَشْهَدَنَّ لَكَ، وَلَئِنْ شُفِّعْتُ لَأَشْفَعَنَّ لَكَ، وَلَئِنْ اسْتَطَعْتُ لَأَنْفَعَنَّكَ، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ مَا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكُمْ فِيهِ خَيْرٌ إِلَّا حَدَّثْتُكُمُوهُ، إِلَّا حَدِيثًا وَاحِدًا سَوْفَ أُحَدِّثُكُمُوهُ الْيَوْمَ، وَقَدْ أُحِيطَ بِنَفْسِي، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حُرِّمَ عَلَى النَّارِ" , حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ مِثْلَهُ، قَالَ:" حَرَّمَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَيْهِ النَّارَ".
صنابحی کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے آخری لمحات زندگی تھے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور رونے لگا اگر سفارش قبول کی گئی تو میں تمہارے حق میں سفارش کروں گا اور جہاں تک میرے بس میں ہوا تمہیں نفع پہنچاؤں گا پھر فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث بھی سنی ہے اور تمہارے لئے اس میں کوئی خیر ہے بخدا! وہ میں نے تم سے بیان کردی ہے البتہ ایک حدیث ہے جو آج میں تم سے بیان کر رہا ہوں جبکہ میرا احاطہ کرلیا گیا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو اللہ اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دے دیتا ہے۔