حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں (بطور تحیۃ المسجد) پڑھ لینی چاہئیں۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تھے تو ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قرأت فرماتے تھے جس کی کوئی آیت کبھی کبھار ہمیں سنا دیتے تھے اس میں بھی پہلی رکعت نسبتہ لمبی اور دوسری مختصر فرماتے تھے فجر کی نماز میں بھی اسی طرح کرتے تھے کہ پہلی رکعت لمبی اور دوسری اس کی نسبت مختصر پڑھاتے تھے اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں بھی قرأت فرماتے تھے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کچھ پیئے تو برتن میں سانس نہ لے جب بیت الخلاء میں داخل ہو تو دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کرے اور جب پیشاب کرے تو دائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو نہ چھوئے۔
قال: قال: يحيى بن ابي كثير , وحدثني عبد الله بن ابي طلحة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا اكل احدكم، فلا ياكل بشماله، وإذا شرب، فلا يشرب بشماله، وإذا اخذ، فلا ياخذ بشماله، وإذا اعطى فلا يعطي بشماله" .قَالَ: قَالَ: يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ، فَلَا يَأْكُلْ بِشِمَالِهِ، وَإِذَا شَرِبَ، فَلَا يَشْرَبْ بِشِمَالِهِ، وَإِذَا أَخَذَ، فَلَا يَأْخُذْ بِشِمَالِهِ، وَإِذَا أَعْطَى فَلَا يُعْطِي بِشِمَالِهِ" .
عبداللہ بن ابی طلحہ رحمہ اللہ سے مرسلاً مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو وہ بائیں ہاتھ سے نہ کھائے جب پیئے تو بائیں ہاتھ سے نہ پیئے جب کوئی چیز پکڑے تو بائیں ہاتھ سے نہ پکڑے اور جب کوئی چیز دے تو بائیں ہاتھ سے نہ دے۔
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن عثمان بن عبد الله بن موهب ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ، قال: توفي رجل منا، فاتينا النبي صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، قال: " هل ترك من شيء؟ قالوا: لا والله ما ترك من شيء , قال: فهل ترك عليه من دين؟ قالوا: نعم، ثمانية عشر درهما , قال: فهل ترك لها قضاء؟ قالوا: لا والله ما ترك لها من شيء , قال: فصلوا انتم عليه , قال ابو قتادة: يا رسول الله، ارايت إن قضيت عنه، اتصلي عليه؟ قال: إن قضيت عنه بالوفاء، صليت عليه , قال: فذهب ابو قتادة، فقضى عنه، فقال: اوفيت ما عليه؟ قال: نعم فدعا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى عليه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنَّا، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، قَالَ: " هَلْ تَرَكَ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالُوا: لَا وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ شَيْءٍ , قَالَ: فَهَلْ تَرَكَ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثَمَانِيَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا , قَالَ: فَهَلْ تَرَكَ لَهَا قَضَاءً؟ قَالُوا: لَا وَاللَّهِ مَا تَرَكَ لَهَا مِنْ شَيْءٍ , قَالَ: فَصَلُّوا أَنْتُمْ عَلَيْهِ , قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قَضَيْتُ عَنْهُ، أَتُصَلِّي عَلَيْهِ؟ قَالَ: إِنْ قَضَيْتَ عَنْهُ بِالْوَفَاءِ، صَلَّيْتُ عَلَيْهِ , قَالَ: فَذَهَبَ أَبُو قَتَادَةَ، فَقَضَى عَنْهُ، فَقَالَ: أَوْفَيْتَ مَا عَلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ فَدَعَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ" .
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی فوت ہوگیا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ وہ اس کا جنازہ پڑھا دیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا اس نے کچھ چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا واللہ اس نے کچھ نہیں چھوڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا اس نے اپنے اوپر کوئی قرض چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا جی ہاں اٹھارہ درہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا اس نے اس کی ادائیگی کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا واللہ اس نے کچھ نہیں چھوڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم خود ہی اس کی نماز جنازہ پڑھ لو، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر میں اس کا قرض ادا کر دوں تو کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس کا پورا قرض ادا کردو تو میں اس کا جنازہ پڑھا دوں گا چنانچہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے جا کر اس کا قرض ادا کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا سارا قرض ادا کردیا؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وفي ضوء طريق أخرى، فهي منقطعة لأن عبدالله بن أبى قتادة لم يسمعه من أبيه
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تھے تو ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قرأت فرماتے تھے جس کی کوئی آیت کبھی کبھار ہمیں سنا دیتے تھے اس میں بھی پہلی رکعت نسبتہ لمبی اور دوسری مختصر فرماتے تھے فجر کی نماز میں بھی اسی طرح کرتے تھے کہ پہلی رکعت لمبی اور دوسری اس کی نسبت مختصر پڑھاتے تھے اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں بھی قرأت فرماتے تھے۔
حدثنا هشيم بن بشير ، اخبرنا عبد الملك بن عمير ، عن عطية القرظي ، قال: عرضت على النبي صلى الله عليه وسلم يوم قريظة، فشكوا في،" فامر بي النبي صلى الله عليه وسلم ان ينظروا إلي هل انبت بعد؟" فنظروا فلم يجدوني انبت، فخلى عني، والحقني بالسبي .حَدَّثَنَا هُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيِّ ، قَالَ: عُرِضْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَشَكُّوا فِيَّ،" فَأَمَرَ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْظُرُوا إِلَيَّ هَلْ أَنْبَتُّ بَعْدُ؟" فَنَظَرُوا فَلَمْ يَجِدُونِي أَنْبَتُّ، فَخَلَّى عَنِّي، وَأَلْحَقَنِي بِالسَّبْيِ .
حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو یہ فیصلہ ہوا کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے ہیں اسے قتل کردیا جائے اور جس کے زیرناف بال نہیں اگے اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے۔ میں ان لوگوں میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا۔
حدثنا حدثنا سفيان ، عن عبد الملك , سمع عطية ، يقول: كنت يوم حكم سعد فيها غلاما، فلم يجدوني انبت فيها، فها انا ذا بين اظهركم .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ , سَمِعَ عَطِيَّةَ ، يَقُولُ: كُنْتُ يَوْمَ حَكَمَ سَعْدٌ فِيهَا غُلَامًا، فَلَمْ يَجِدُونِي أَنْبَتُّ فِيهَا، فَهَا أَنَا ذَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ .
حضرت عطیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس دن حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنوقریظہ کے متعلق فیصلہ فرمایا ہے میں ایک چھوٹا لڑکا تھا انہوں نے میرے زیرناف بال اگے ہوئے نہیں پائے اسی وجہ سے آج میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔
حدثنا عبد الله، حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا حميد بن الاسود ، حدثنا الضحاك بن عثمان ، عن المقبري ، عن صفوان بن المعطل السلمي , انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، إني اسالك عما انت به عالم، وانا به جاهل من الليل والنهار ساعة تكره فيها الصلاة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صليت الصبح، فامسك عن الصلاة حتى تطلع الشمس، فإذا طلعت فصل، فإن الصلاة محضورة متقبلة حتى تعتدل على راسك مثل الرمح، فإذا اعتدلت على راسك، فإن تلك الساعة تسجر فيها جهنم وتفتح فيها ابوابها حتى تزول عن حاجبك الايمن، فإذا زالت عن حاجبك الايمن، فصل فإن الصلاة محضورة متقبلة حتى تصلي العصر" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيِّ , أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي أَسْأَلُكَ عَمَّا أَنْتَ بِهِ عَالِمٌ، وَأَنَا بِهِ جَاهِلٌ مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سَاعَةٌ تُكْرَهُ فِيهَا الصَّلَاةُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّيْتَ الصُّبْحَ، فَأَمْسِكْ عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ فَصَلِّ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تَعْتَدِلَ عَلَى رَأْسِكَ مِثْلَ الرُّمْحِ، فَإِذَا اعْتَدَلَتْ عَلَى رَأْسِكَ، فَإِنَّ تِلْكَ السَّاعَةَ تُسْجَرُ فِيهَا جَهَنَّمُ وَتُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُهَا حَتَّى تَزُولَ عَنْ حَاجِبِكَ الْأَيْمَنِ، فَإِذَا زَالَتْ عَنْ حَاجِبِكَ الْأَيْمَنِ، فَصَلِّ فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَحْضُورَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ حَتَّى تُصَلِّيَ الْعَصْرَ" .
حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے نبی! میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں جس سے آپ باخبر ہیں اور میں ناواقف ہوں اور وہ یہ کہ دن رات کے وہ کون سے اوقات ہیں جن میں آپ نماز کو مکروہ سمجھتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم فجر کی نماز پڑھ لیا کرو تو طلوع آفتاب تک نماز سے رکے رہا کرو جب سورج طلوع ہوجائے تو نماز پڑھا کرو کیونکہ اس نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے یہاں تک کہ سورج تمہارے سر پر نیزے کی مانند برابر ہوجائے جب ایسا ہوجائے تو یہی وہ گھڑی ہوتی ہے جس میں جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے اور اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ تمہاری دائیں جانب سے ڈھل جائے جب ایسا ہوجائے تو نماز پڑھا کرو کیونکہ اس نماز میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور وہ قبول ہوتی ہے یہاں تک کہ تم نماز عصر پڑھ لو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، المقبري لم يسمعه من صفوان