حدثنا حسين ، حدثنا ابن ابي ذئب ، عن صالح يعني ابن ابي حسان ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم " بعثه في طليعة قبل غيقة , وودان وهو محرم وابو قتادة غير محرم، فإذا حمار وحش، فطلب منهم سوطا، فلم يناولوه، فاختلس سوط بعضهم، فصاد حمارا وحشيا، فاكلوه، ثم لحقوا النبي صلى الله عليه وسلم بالابواء، قالوا: إنا صنعنا شيئا لا ندري ما هو فقال:" اطعمونا" .حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ صَالِحٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَسَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بَعَثَهُ فِي طَلِيعَةٍ قِبَلَ غَيْقَةَ , وَوَدَّانَ وَهُوَ مُحْرِمٌ وَأَبُو قَتَادَةَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَإِذَا حِمَارُ وَحْشٍ، فَطَلَبَ مِنْهُمْ سَوْطًا، فَلَمْ يُنَاوِلُوهُ، فَاخْتَلَسَ سَوْطَ بَعْضِهِمْ، فَصَادَ حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَأَكَلُوهُ، ثُمَّ لَحِقُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالْأَبْوَاءِ، قَالُوا: إِنَّا صَنَعْنَا شَيْئًا لَا نَدْرِي مَا هُوَ فَقَالَ:" أَطْعِمُونَا" .
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستے کو غیقہ اور ودان کی طرف بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محرم تھے لیکن ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام نہیں باندھا تھا اچانک مجھے ایک جنگلی گدھا نظر آیا میں نے ان سے کوڑا پکڑانے کی درخواست کی لیکن انہوں نے محرم ہونے کی وجہ سے میری مدد کرنے سے انکار کردیا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اچک کر ان میں سے کسی کا کوڑا پکڑا اور اس گورخر کو شکار کرلیا لوگوں نے اسے کھایا اور جب مقام ابواء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو عرض کیا کہ ہم نے ایسا کام کیا ہے جس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیں بھی اس میں سے کھلاؤ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1821، م: 1196، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل صالح بن أبى حسان، فقد اختلف فيه
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو اس وقت تک کھڑے نہ ہوا کرو جب تک مجھے دیکھ نہ لو۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک کافر کو قتل کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سازوسامان اور زرہ انہیں دے دی جسے انہوں نے پانچ اوقیہ کے عوض بیچ دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2100، م: 1751، إسناده حسن
حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني ابو صخر ، ان يحيى بن النضر الانصاري حدثه، انه سمع ابا قتادة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول على المنبر للانصار: " الا إن الناس دثاري، والانصار شعاري، لو سلك الناس واديا، وسلكت الانصار شعبة، لاتبعت شعبة الانصار، ولولا الهجرة، لكنت رجلا من الانصار، فمن ولي من الانصار، فليحسن إلى محسنهم، وليتجاوز عن مسيئهم، ومن افزعهم، فقد افزع هذا الذي بين هاتين" , واشار إلى نفسه صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ النَّضْرِ الْأَنْصَارِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا قَتَادَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ لِلْأَنْصَارِ: " أَلَا إِنَّ النَّاسَ دِثَارِي، وَالْأَنْصَارَ شِعَارِي، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا، وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبَةً، لَاتَّبَعْتُ شِعْبَةَ الْأَنْصَارِ، وَلَوْلَا الْهِجْرَةُ، لَكُنْتُ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَمَنْ وَلِيَ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَلْيُحْسِنْ إِلَى مُحْسِنِهِمْ، وَلْيَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِيئِهِمْ، وَمَنْ أَفْزَعَهُمْ، فَقَدْ أَفْزَعَ هَذَا الَّذِي بَيْنَ هَاتَيْنِ" , وَأَشَارَ إِلَى نَفْسِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر انصار کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یاد رکھو! لوگ میرے لئے اوپر کا کپڑا ہیں اور انصار میرے لئے نیچے کا کپڑا ہیں (جو جسم سے ملا ہوتا ہے) اگر لوگ ایک راستے پر چل رہے ہوں اور انصار دوسرے راستے پر تو میں انصار کے راستے پر چلوں گا اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا، اس لئے جو شخص انصار کے معاملات کا ذمہ دار بنے اسے چاہئے کہ ان نیکو کاروں سے اچھا سلوک کرے اور ان کے گنہگاروں سے تجاوز کرے اور جو شخص خوفزدہ کرتا ہے وہ اس شخص کو خوفزدہ کرتا ہے جو ان دو ستونوں کے درمیان ہے یعنی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن من أجل أبى صخر
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، قال: سئل عطاء بن ابي رباح وانا شاهد , عن الفضل في صوم يوم عرفة، فقال: جاء هذا من قبلكم يا اهل العراق، حدثنيه ابو الخليل ، عن حرملة بن إياس ، عن ابي قتادة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال كلمة تشبه عدل ذلك، قال: " صوم عرفة بصوم سنتين، وصوم عاشوراء بصوم سنة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ: سُئِلَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَأَنَا شَاهِدٌ , عَنِ الْفَضْلِ فِي صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَقَالَ: جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِكُمْ يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ، حَدَّثَنِيهِ أَبُو الْخَلِيلِ ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ إِيَاسٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ كَلِمَةً تُشْبِهُ عَدْلَ ذَلِكَ، قَالَ: " صَوْمُ عَرَفَةَ بِصَوْمِ سَنَتَيْنِ، وَصَوْمُ عَاشُورَاءَ بِصَوْمِ سَنَةٍ" .
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مشابہہ کوئی کلمہ فرمایا کہ عرفہ کا روزہ دو سال کا کفارہ بنتا ہے اور یوم عاشورہ کا روزہ ایک سال کا کفارہ بنتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه والاختلاف فيه
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا يحيى بن ابي كثير ، حدثنا عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ابي قتادة , ان النبي صلى الله عليه وسلم" كان يقرا في صلاة الظهر في الركعتين الاوليين بام الكتاب وسورتين، وكان يسمعنا الاحيان الآية، قال: وكان يقرا في الركعتين الاخريين بام القرآن , قال: وكان يطيل في الركعة الاولى ما لا يطيل في الثانية، وهكذا في صلاة العصر، وهكذا في صلاة الصبح" , قال عفان: وابان بن يزيد العطار ، مثله سواء.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ، وَكَانَ يُسْمِعُنَا الْأَحْيَانَ الْآيَةَ، قَالَ: وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُخْرَيَيْنِ بِأُمِّ الْقُرْآنِ , قَالَ: وَكَانَ يُطِيلُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مَا لَا يُطِيلُ فِي الثَّانِيَةِ، وَهَكَذَا فِي صَلَاةِ الْعَصْرِ، وَهَكَذَا فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ" , قَالَ عَفَّانُ: وَأَبَانُ بْنُ يَزِيدَ الْعَطَّارُ ، مِثْلَهُ سَوَاءً.
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تھے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور کوئی سورت ملاتے تھے جس کی کوئی آیت کبھی کبھار ہمیں بھی سنا دیتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھتے تھے فجر کی نماز میں پہلی رکعت لمبی پڑھاتے تھے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچی اور پکی کھجور کشمش اور کجھور سرخ کچی کھجور اور تر کھجور کو ملا کر نبیذ بنانے سے منع فرمایا ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا يحيى بن ابي كثير ، حدثنا عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه , انه شهد النبي صلى الله عليه وسلم صلى على ميت فسمعته، يقول: " اللهم اغفر لحينا وميتنا، وشاهدنا وغائبنا، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وانثانا" , قال: وحدثني ابو سلمة بن عبد الرحمن بهؤلاء الثمان كلمات وزاد كلمتين:" من احييته منا فاحيه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان"..حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى مَيِّتٍ فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا" , قَالَ: وحَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بِهَؤُلَاءِ الثَّمَانِ كَلِمَاتٍ وَزَادَ كَلِمَتَيْنِ:" مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيمَانِ"..
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی نماز جنازہ پڑھائی میں بھی موجود تھا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! ہمارے زندہ اور فوت شدہ موجود اور غیر موجود چھوٹوں اور بڑوں اور مرد و عورت کو معاف فرما۔ ابو سلمہ نے اس میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ اے اللہ! تو ہم میں سے جسے زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور جسے موت دے اسے ایمان پر موت عطاء فرما۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فيه على يحيى بن أبى كثير
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یوم عرفہ کے روزے کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے بارگاہ الٰہی سے امید ہے کہ اس سے گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے سائل نے یوم عاشورہ کے روزے کا حکم پوچھا تو فرمایا مجھے بارگاہ الٰہی سے امید ہے کہ اس سے گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔