حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بعض اوقات میں نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا ارادہ ہوتا ہے کہ لمبی نماز پڑھاؤں گا لیکن پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے تو اپنی نماز مختصر کردیتا ہوں تاکہ اس کی ماں کیلئے یہ چیز دشواری کا سبب نہ بن جائے۔
حدثنا عبيدة بن حميد ، حدثني عبد العزيز بن رفيع ، عن ابن ابي قتادة ، عن ابي قتادة ، قال:" كنت مع نفر من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وكانوا محرمين إلا رجلا واحدا، فبصر بصيد، فاخذ سوطا، فحمل عليه، فاصاده، فاكل منه واكلنا، ثم تزودنا منه، فلما اتينا النبي صلى الله عليه وسلم، قلنا يا رسول الله، إن فلانا كان محلا او حلالا، فاصاب صيدا، وإنه اكل منه واكلنا معه، ومعنا منه , قال: فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم كلوا" ..حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانُوا مُحْرِمِينَ إِلَّا رَجُلًا وَاحِدًا، فَبَصُرَ بِصَيْدٍ، فَأَخَذَ سَوْطًا، فَحَمَلَ عَلَيْهِ، فَأَصَادَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ وَأَكَلْنَا، ثُمَّ تَزَوَّدْنَا مِنْهُ، فَلَمَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانًا كَانَ مُحِلًّا أَوْ حَلَالًا، فَأَصَابَ صَيْدًا، وَإِنَّهُ أَكَلَ مِنْهُ وَأَكَلْنَا مَعَهُ، وَمَعَنَا مِنْهُ , قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُوا" ..
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا ان میں ایک آدمی کے علاوہ باقی سب محرم تھے اس آدمی کو ایک شکار نظر آیا اس نے اپنا کوڑا پکڑ کر اس پر حملہ کیا اور اسے شکار کرلیا پھر اس نے بھی اسے کھایا اور ہم نے بھی کھایا اور ہم نے اس میں سے کچھ زاد راہ کے طور پر بچا بھی لیا جب ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو عرض کیا یا رسول اللہ! فلاں آدمی احرام کی حالت میں نہیں تھا اس نے شکار کیا جسے اس نے بھی کھایا اور ہم نے بھی اور اب بھی ہمارے پاس اس میں سے تھوڑا سا گوشت موجود ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اسے کھا سکتے ہو۔
حدثنا يعقوب ، حدثني ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني معبد بن كعب بن مالك ، عن ابي قتادة الحارث بن ربعي ، قال:" بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى سيف البحر في بعض عمره إلى مكة، ووعدنا ان نلقاه بقديد، فخرجنا ومنا الحلال ومنا الحرام، قال: فكنت حلالا، فذكر الحديث , قال: وفيه هذه العضد قد شويتها وانضجتها واطيبتها، قال:" فهاتها قال فجئته بها، فنهسها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو حرام حتى فرغ منها"..حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَعْبَدُ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْحَارِثِ بْنِ رِبْعِيٍّ ، قَالَ:" بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَيْفِ الْبَحْرِ فِي بَعْضِ عُمَرِهِ إِلَى مَكَّةَ، وَوَعَدَنَا أَنْ نَلْقَاهُ بِقُدَيْدٍ، فَخَرَجْنَا وَمِنَّا الْحَلَالُ وَمِنَّا الْحَرَامُ، قَالَ: فَكُنْتُ حَلَالًا، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ , قَالَ: وَفِيهِ هَذِهِ الْعَضُدُ قَدْ شَوَيْتُهَا وَأَنْضَجْتُهَا وَأَطْيَبْتُهَا، قَالَ:" فَهَاتِهَا قَالَ فَجِئْتُهُ بِهَا، فَنَهَسَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَرَامٌ حَتَّى فَرَغَ مِنْهَا"..
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے کسی عمرے کے موقع پر ”سیف البحر“ کی طرف لشکر کے ساتھ روانہ فرمایا اور ہم سے یہ طے کرلیا کہ مقام "" قدید "" میں ملاقات ہوگی چنانچہ ہم روانہ ہوگئے ہم میں سے کچھ لوگ محرم اور کچھ غیر محرم تھے غیر محرموں میں میں بھی شامل تھا پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی اور فرمایا کہ اس میں سے یہ دستی بچی ہے جسے میں نے خوب اچھی طرح بھون کر پکایا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے کر آؤ میں وہ لے کر حاضر خدمت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دانتوں سے نوچ کر کھانے لگے (کہ یہ زود ہضم ہوتا ہے) جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو گئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1821، م: 1196، وهذا إسناد حسن
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جسے خواب میں میری زیارت نصیب ہوجائے وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھ لے گا یا یہ کہ اسے یقین کرلینا چاہئے کہ اس نے میری ہی زیارت کی ہے کیونکہ شیطان میری شکل و صورت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جسے خواب میں میری زیارت نصیب ہوجائے اسے یقین کرلینا چاہئے کہ اس نے میری ہی زیارت کی ہے۔
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني عبد الله بن ابي بكر انه حدث , عن ابي قتادة، قال ابي : وحدثني ابن إسحاق، عن يحيى بن سعيد ، عن نافع الاقرع ابي محمد مولى بني غفار، عن ابي قتادة، قال: قال ابو قتادة : رايت رجلين يقتتلان مسلم ومشرك، وإذا رجل من المشركين يريد ان يعين صاحبه المشرك على المسلم، فاتيته فضربت يده، فقطعتها، واعتنقني بيده الاخرى، فوالله ما ارسلني حتى وجدت ريح الموت، فلولا ان الدم نزفه لقتلني، فسقط فضربته فقتلته، واجهضني عنه القتال، ومر به رجل من اهل مكة فسلبه، فلما فرغنا ووضعت الحرب اوزارها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قتل قتيلا فسلبه له" , قال: قلت: يا رسول الله، قد قتلت قتيلا ذا سلب، فاجهضني عنه القتال، فلا ادري من استلبه؟ فقال رجل من اهل مكة: صدق يا رسول الله، انا سلبته فارضه عني من سلبه، قال: فقال ابو بكر: تعمد إلى اسد من اسد الله، يقاتل عن الله عز وجل تقاسمه سلبه، اردد عليه سلب قتيله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صدق فاردد عليه سلب قتيله" , قال ابو قتادة فاخذته منه فبعته، فاشتريت بثمنه مخرفا بالمدينة، وإنه لاول مال اعتقدته.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهُ حَدَّثَ , عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ أَبِي : وَحَدَّثَنِي ابْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ نَافِعٍ الْأَقْرَعِ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى بَنِي غِفَارٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو قَتَادَةَ : رَأَيْتُ رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ مُسْلِمٌ وَمُشْرِكٌ، وَإِذَا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُرِيدُ أَنْ يُعِينَ صَاحِبَهُ الْمُشْرِكَ عَلَى الْمُسْلِمِ، فَأَتَيْتُهُ فَضَرَبْتُ يَدَهُ، فَقَطَعْتُهَا، وَاعْتَنَقَنِي بِيَدِهِ الْأُخْرَى، فَوَاللَّهِ مَا أَرْسَلَنِي حَتَّى وَجَدْتُ رِيحَ الْمَوْتِ، فَلَوْلَا أَنَّ الدَّمَ نَزَفَهُ لَقَتَلَنِي، فَسَقَطَ فَضَرَبْتُهُ فَقَتَلْتُهُ، وَأَجْهَضَنِي عَنْهُ الْقِتَالُ، وَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَسَلَبَهُ، فَلَمَّا فَرَغْنَا وَوَضَعَتْ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا فَسَلَبُهُ لَهُ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ قَتَلْتُ قَتِيلًا ذَا سَلَِب، فَأَجْهَضَنِي عَنْهُ الْقِتَالُ، فَلَا أَدْرِي مَنْ اسْتَلَبَهُ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا سَلَبْتُهُ فَأَرْضِهِ عَنِّي مِنْ سَلَبِهِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: تَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسْدِ اللَّهِ، يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ تُقَاسِمُهُ سَلَبَهُ، ارْدُدْ عَلَيْهِ سَلَبَ قَتِيلِهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ سَلَبَ قَتِيلِهِ" , قَالَ أَبُو قَتَادَةَ فَأَخَذْتُهُ مِنْهُ فَبِعْتُهُ، فَاشْتَرَيْتُ بِثَمَنِهِ مَخْرَفًا بِالْمَدِينَةِ، وَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ اعْتَقَدْتُهُ.
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے میدان جنگ میں ایک مسلمان اور ایک مشرک دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا پھر اچانک ایک مشرک پر نظر پڑی جو اپنے مشرک ساتھی کی مسلمان کے خلاف مدد کے لئے آگے بڑھ رہا تھا میں نے اس کے پاس پہنچ کر اس کے ہاتھ پر وار کیا جس سے اس کا ہاتھ کٹ گیا اس نے دوسرے ہاتھ سے میری گردن دبوچ لی اور بخدا! اس نے مجھے اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک مجھے موت کی دستک محسوس نہ ہوئی اور اگر اس کا خون اتنا زیادہ نہ بہتا تو وہ مجھے قتل کر کے ہی دم لیتا بہرحال وہ گرگیا اور میں نے اسے مار کر قتل کردیا اور خود بدحال ہوگیا ادھر اہل مکہ میں سے ایک آدمی اس کے پاس سے گذرا اور اس کا سارا سازوسامان لے کر چلتا بنا۔
جب ہم لوگ فارغ ہوئے اور جنگ کے شعلے بجھ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی کافر کو قتل کیا ہو اس کا سازوسامان اسی کو ملے گا اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ایک شخص کو قتل کیا ہے جس کے پاس بہت زیادہ سازوسامان تھا لیکن میں اسے قتل کرنے کے بعد بہت بدحال ہوگیا تھا اس لئے مجھے پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا سامان کون اتار کرلے گیا ایک آدمی " جو اہل مکہ میں سے تھا " کہنے لگا یا رسول اللہ! یہ سچ کہتا ہے اس کا سامان میں لے گیا تھا اس لئے آپ اس کے سامان کے حوالے سے انہیں میری طرف سے کچھ اور دے کر خوش کر دیجئے (اور یہ سامان میرے پاس ہی رہنے دیں) یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر " اللہ کے راستہ میں قتال کرتا ہے " کا سامان تقسیم کرنا چاہتے ہو؟ اسے اس کا سامان واپس کرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر نے سچ کہا تم اس کے مقتول کا سامان واپس کردو، چنانچہ میں نے اسے حاصل کر کے آگے فروخت کردیا اور اس کی قیمت سے میں نے مدینہ منورہ میں ایک باغ خرید لیا جو کہ سب سے پہلا مال تھا جسے میں نے خریدا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2100، م: 1751، والرجل المبهم فى إسناده الأول هو نافع الأقرع، وأسقط ابن إسحاق فى إسناده الثاني الواسطة بين يحيى بن سعيد و نافع الأقرع
حدثنا حسن بن موسى , وحسين بن محمد , قالا: حدثنا شيبان ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ، قال: بينما نحن نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ سمع جلبة رجال، فلما صلى، دعاهم، فقال:" ما شانكم؟" قالوا: يا رسول الله، استعجلنا إلى الصلاة، قال:" فلا تفعلوا، إذا اتيتم الصلاة، فعليكم السكينة، فما ادركتم فصلوا، وما سبقكم فاتموا" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى , وَحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ سَمِعَ جَلَبَةَ رِجَالٍ، فَلَمَّا صَلَّى، دَعَاهُمْ، فَقَالَ:" مَا شَأْنُكُمْ؟" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَعْجَلْنَا إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ:" فَلَا تَفْعَلُوا، إِذَا أَتَيْتُمْ الصَّلَاةَ، فَعَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا سَبَقَكُمْ فَأَتِمُّوا" .
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے کہ کچھ لوگوں کے دوڑنے کی آواز سنائی دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر انہیں بلایا اور پوچھا کہ کیا ماجرا تھا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی نماز میں شریک ہونا چاہتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کیا کرو، جب نماز کے لئے آیا کرو تو اطمینان اور سکون کو اپنے اوپر لازم رکھا کرو جتنی نماز مل جائے اتنی پڑھ لیا کرو اور جو رہ جائے اسے مکمل کرلیا کرو۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي مسلمة ، قال: سمعت ابا نضرة يحدث , عن ابي سعيد الخدري ، قال: اخبرني من هو خير مني، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لعمار حين جعل يحفر الخندق، وجعل يمسح راسه، ويقول:" بؤس ابن سمية، تقتلك الفئة الباغية" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَمَّارٍ حِينَ جَعَلَ يَحْفِرُ الْخَنْدَقَ، وَجَعَلَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ، وَيَقُولُ:" بُؤْسَ ابْنِ سُمَيَّةَ، تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ" .
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھ سے بہتر آدمی نے مجھ سے بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خندق کھودنے لگے تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے سر کو جھاڑتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ ابن سمیہ! افسوس کہ تمہیں ایک باغی گروہ شہید کر دے گا۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابن سمیہ! تمہیں ایک باغی گروہ شہید کر دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل الحسن بن يحيى، لكنه توبع
حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا هشيم ، اخبرنا الحصين بن عبد الرحمن ، حدثنا عبد الله بن ابي قتادة الانصاري ، عن ابيه ابي قتادة ، قال: سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن في سفر ذات ليلة، فقلنا: يا رسول الله، لو عرست بنا , فقال:" إني اخاف ان تناموا عن الصلاة، فمن يوقظنا للصلاة؟" فقال بلال: انا يا رسول الله , قال: فعرس بالقوم، فاضطجعنا، واستند بلال إلى راحلته، فغلبته عيناه، واستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد طلع حاجب الشمس، فقال:" يا بلال، اين ما قلت لنا؟" قلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق ما القيت علي نومة مثلها، فقال صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل قبض ارواحكم حين شاء، وردها عليكم حين شاء" , ثم امرهم، فانتشروا لحاجتهم وتوضا، فارتفعت الشمس، فصلى بهم الفجر" .حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا الْحُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ فِي سَفَرٍ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا , فَقَالَ:" إِنِّي أَخَافُ أَنْ تَنَامُوا عَنِ الصَّلَاةِ، فَمَنْ يُوقِظُنَا لِلصَّلَاةِ؟" فَقَالَ بِلَالٌ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: فَعَرَّسَ بِالْقَوْمِ، فَاضْطَجَعْنَا، وَاسْتَنَدَ بِلَالٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ، وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَالَ:" يَا بِلَالُ، أَيْنَ مَا قُلْتَ لَنَا؟" قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُلْقِيَتْ عَلَيَّ نَوْمَةٌ مِثْلُهَا، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ" , ثُمَّ أَمَرَهُمْ، فَانْتَشَرُوا لِحَاجَتِهِمْ وَتَوَضَّأَ، فَارْتَفَعَتْ الشَّمْسُ، فَصَلَّى بِهِمْ الْفَجْرَ" .
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر پر روانہ ہوئے رات کے وقت ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر تھوڑی دیر کے لئے پڑاؤ کرلیں تو بہتر ہوگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اندیشہ ہے کہ تم نماز کے وقت سوتے رہے تو ہمیں نماز کے لئے کون جگائے گا؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں جگاؤں گا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کرلیا اور ہم سب لیٹ گئے حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی اپنی سواری سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور ان کی آنکھ بھی لگ گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج طلوع ہوچکا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جگا کر فرمایا بلال! وہ بات کہاں گئی جو تم نے ہم سے کہی تھی؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھ پر ایسی نیند کبھی طاری نہیں ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہاری روحوں کو جب تک چاہا اپنے قبضے میں رکھا اور جب چاہا واپس لوٹا دیا پھر لوگوں کو حکم دیا تو وہ قضا حاجت کے لئے منتشر ہوگئے وضو کیا اور جب سورج بلند ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز فجر پڑھا دی۔