حدثنا يونس ، حدثنا ابان ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بنا , فيقرا في العصر والظهر في الركعتين الاوليين بسورتين وام الكتاب، وكان يسمعنا الاحيان الآية، ويقرا في الركعتين الاخيرتين بام الكتاب، وكان يطيل اول ركعة من صلاة الفجر، واول ركعة من صلاة الظهر" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِنَا , فَيَقْرَأُ فِي الْعَصْرِ وَالظُّهْرِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ بِسُورَتَيْنِ وَأُمِّ الْكِتَابِ، وَكَانَ يُسْمِعُنَا الْأَحْيَانَ الْآيَةَ، وَيَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأَخِيرَتَيْنِ بِأُمِّ الْكِتَابِ، وَكَانَ يُطِيلُ أَوَّلَ رَكْعَةٍ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَأَوَّلَ رَكْعَةٍ مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ" .
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت فرماتے تھے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور کوئی سورت ملاتے تھے جس کی کوئی آیت کبھی کبھار ہمیں بھی سنا دیتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھتے تھے فجر کی نماز میں پہلی رکعت لمبی پڑھاتے تھے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اس لئے جو شخص کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کسی کے سامنے اسے بیان نہ کرے بلکہ خواب دیکھ کر اپنی بائیں جانب تین مرتبہ تھتکار دے اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے، اس طرح وہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب پیشاب کرے تو دائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو نہ چھوئے جب بیت الخلاء میں داخل ہو تو دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کرے اور جب تم میں سے کوئی کچھ پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا الاسود بن شيبان ، عن خالد بن سمير ، قال: قدم علينا عبد الله بن رباح الانصاري , وكانت الانصار تفقهه، فاتيته وهو في حواء شريك بن الاعور الشارع على المربد، وقد اجتمع عليه ناس من الناس، فقال: حدثنا ابو قتادة الانصاري فارس رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيش الامراء، فقال: " عليكم زيد بن حارثة، فإن اصيب زيد , فجعفر بن ابي طالب، فإن اصيب جعفر , فعبد الله بن رواحة الانصاري" , فوثب جعفر، فقال: بابي انت وامي يا رسول الله، ما كنت ارهب ان تستعمل علي زيدا , قال:" امضه فإنك لا تدري اي ذلك خير" , فانطلقوا فلبثوا ما شاء الله، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صعد المنبر , وامر ان ينادى الصلاة جامعة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ناب خبر او بات خبر او ثاب خبر شك عبد الرحمن , الا اخبركم عن جيشكم هذا الغازي، إنهم انطلقوا فلقوا العدو، فاصيب زيد شهيدا، فاستغفروا له" , فاستغفر له الناس" ثم اخذ اللواء جعفر بن ابي طالب فشد على القوم حتى قتل شهيدا، اشهد له بالشهادة فاستغفروا له، ثم اخذ اللواء عبد الله بن رواحة، فاثبت قدميه حتى قتل شهيدا فاستغفروا له، ثم اخذ اللواء خالد بن الوليد ولم يكن من الامراء، هو امر نفسه" , ثم رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم إصبعيه، فقال:" اللهم هو سيف من سيوفك فانصره" , فمن يومئذ سمي خالد سيف الله، ثم قال:" انفروا فامدوا إخوانكم، ولا يتخلفن احد" , قال: فنفر الناس في حر شديد مشاة وركبانا .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيُّ , وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ تُفَقِّهُهُ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي حِوَاءِ شَرِيكِ بْنِ الْأَعْوَرِ الشَّارِعِ عَلَى الْمِرْبَدِ، وَقَدْ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْأُمَرَاءِ، فَقَالَ: " عَلَيْكُمْ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَإِنْ أُصِيبَ زَيْدٌ , فَجَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَإِنْ أُصِيبَ جَعْفَرٌ , فعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ الْأَنْصَارِيُّ" , فَوَثَبَ جَعْفَرٌ، فَقَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كُنْتُ أَرْهَبُ أَنْ تَسْتَعْمِلَ عَلَيَّ زَيْدًا , قَالَ:" امْضِهْ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَيُّ ذَلِكَ خَيْرٌ" , فَانْطَلَقُوا فَلَبِثُوا مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ الْمِنْبَرَ , وَأَمَرَ أَنْ يُنَادَى الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَابَ خَبْرٌ أَوْ بَاتَ خَبْرٌ أَوْ ثَابَ خَبْرٌ شَكَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ , أَلَا أُخْبِرُكُمْ عَنْ جَيْشِكُمْ هَذَا الْغَازِي، إِنَّهُمْ انْطَلَقُوا فَلَقَوْا الْعَدُوَّ، فَأُصِيبَ زَيْدٌ شَهِيدًا، فَاسْتَغْفِرُوا لَهُ" , فَاسْتَغْفَرَ لَهُ النَّاسُ" ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَاءَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَشَدَّ عَلَى الْقَوْمِ حَتَّى قُتِلَ شَهِيدًا، أَشْهَدُ لَهُ بِالشَّهَادَةِ فَاسْتَغْفِرُوا لَهُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَأَثْبَتَ قَدَمَيْهِ حَتَّى قُتِلَ شَهِيدًا فَاسْتَغْفِرُوا لَهُ، ثُمَّ أَخَذَ اللِّوَاءَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَلَمْ يَكُنْ مِنَ الْأُمَرَاءِ، هُوَ أَمَّرَ نَفْسَهُ" , ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَيْهِ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ هُوَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِكَ فَانْصُرْهُ" , فَمِنْ يَوْمِئِذٍ سُمِّيَ خَالِدٌ سَيْفَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ:" انْفِرُوا فَأَمِدُّوا إِخْوَانَكُمْ، وَلَا يَتَخَلَّفَنَّ أَحَدٌ" , قَالَ: فَنَفَرَ النَّاسُ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ مُشَاةً وَرُكْبَانًا .
خالد بن سمیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمارے یہاں عبداللہ بن رباح آئے میں نے دیکھا کہ ان کے پاس بہت سے لوگ جمع ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں " فارس رسول " حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " جیش امراء " نامی لشکر کو روانہ کرتے ہوئے فرمایا تمہارے امیر زید بن حارثہ ہیں اگر زید شہید ہوجائیں تو جعفر امیر ہوں گے اگر جعفر بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ انصاری امیر ہوں گے اس پر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میرے خیال نہیں تھا کہ آپ زید کو مجھ پر امیر مقرر کریں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم روانہ ہوجاؤ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس بات میں خیر ہے؟
چنانچہ وہ لشکر روانہ ہوگیا کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور " نماز تیار ہے " کی منادی کرنے کا حکم دیا اور فرمایا ایک افسوس ناک خبر ہے کیا میں تمہیں مجاہدین کے اس لشکر کے متعلق نہ بتاؤں؟ وہ لوگ یہاں سے روانہ ہوئے اور دشمن سے آمنا سامنا ہوا تو زید شہید ہوگئے ان کے لئے بخشش کی دعاء کرو لوگوں نے ایسا ہی کیا پھر جعفر بن ابی طالب نے جھنڈا پکڑا اور دشمن پر سخت حملہ کیا حتٰی کہ وہ بھی شہید ہوگئے میں ان کی شہادت کی گواہی دیتا ہوں لہٰذا ان کی بخشش کے لئے دعاء کرو پھر عبداللہ بن رواحہ نے جھنڈا پکڑا اور نہایت پامردی سے ڈٹے رہے حتیٰ کہ وہ بھی شہید ہوگئے ان کے لئے بھی استغفار کرو پھر خالد بن ولید نے جھنڈا پکڑ لیا گو کہ کسی نے انہیں امیر منتخب نہیں کیا تھا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی بلند کر کے فرمایا اے اللہ! وہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے تو اس کی مدد فرما اسی دن سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا نام " سیف اللہ " پڑگیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے کوچ کرو اور کوئی آدمی بھی پیچھے نہ رہے چنانچہ اس سخت گرمی کے موسم میں لوگ پیدل اور سوار ہو کر روانہ ہوگئے۔
قرات على عبد الرحمن بن مهدي : مالك ، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، عن نافع مولى ابي قتادة الانصاري , عن ابي قتادة , انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كان ببعض طرق مكة، تخلف مع اصحاب له محرمين وهو غير محرم، فراى حمارا وحشيا، فاستوى على فرسه، وسال اصحابه ان يناولوه سوطه، فابوا، فسالهم رمحه، فابوا، واخذه، ثم شد على الحمار، فقتله، فاكل بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وابى بعضهم، فلما ادركوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، سالوه عن ذلك، فقال:" إنما هي طعمة اطعمكموها الله عز وجل" ..قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ : مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ أَبِي قَتَادَةَ , أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طُرُقِ مَكَّةَ، تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ، وَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ، فَأَبَوْا، فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ، فَأَبَوْا، وَأَخَذَهُ، ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ، فَقَتَلَهُ، فَأَكَلَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَى بَعْضُهُمْ، فَلَمَّا أَدْرَكُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ" ..
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے مکہ مکرمہ کے کسی راستے میں وہ اپنے کچھ محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے لیکن وہ خود احرام کی حالت میں نہ تھے انہوں نے ایک گورخر دیکھا تو جلدی سے اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئے اور اپنے ساتھیوں سے اپنا کوڑا مانگا لیکن انہوں نے انکار کردیا پھر نیزا مانگا انہوں نے وہ دینے سے بھی انکار کردیا بالآخر انہوں نے خود ہی نیچے اتر کر اسے پکڑا اور گورخر کی طرف تیزی سے دوڑ پڑے اور اسے شکار کرلیا جسے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کھالیا اور کچھ نے کھانے سے انکار کردیا جب وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اس کے متعلق سوال کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کھانا تو اللہ ہی نے تمہیں کھلایا ہے۔
حدثنا إسماعيل ، عن هشام الدستوائي ، حدثنا يحيى بن ابي كثير ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، قال: احرم رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية ولم يحرم ابو قتادة ، قال: وحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم ان عدوا بغيفة، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبينما انا مع اصحابي، فضحك بعضهم إلى بعض، فنظرت فإذا انا بحمار وحش، فاستعنتهم، فابوا ان يعينوني، فحملت عليه، فاثبته، فاكلنا من لحمه، وخشينا ان نقتطع، فانطلقت اطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعلت ارفع فرسي شاوا، واسير شاوا، ولقيت رجلا من بني غفار في جوف الليل، فقلت: اين تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: تركته وهو بتعهن، وهو مما يلي السقيا فادركته، فقلت:" يا رسول الله، إن اصحابك يقرئونك السلام ورحمة الله، وقد خشوا ان يتقطعوا دونك، فانتظرهم , قال: فانتظرهم، قلت: وقد اصبت حمار وحش، وعندي منه فاضلة , فقال للقوم: " كلوا" , وهم محرمون .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: أَحْرَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَمْ يُحْرِمْ أَبُو قَتَادَةَ ، قَالَ: وَحُدِّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَدُوًّا بِغِيفَةَ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَيْنَمَا أَنَا مَعَ أَصْحَابِي، فَضَحِكَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِ وَحْشٍ، فَاسْتَعَنْتُهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي، فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَأَثْبَتُّهُ، فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهِ، وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ، فَانْطَلَقْتُ أَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلْتُ أَرْفَعُ فَرَسِي شَأْوًا، وَأَسِيرُ شَأْوًا، وَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: أَيْنَ تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: تَرَكْتُهُ وَهُوَ بِتِعْهِنَ، وَهُوَ مِمَّا يَلِي السُّقْيَا فَأَدْرَكْتُهُ، فَقُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَصْحَابَكَ يُقْرِئُونَكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ، وَقَدْ خَشُوا أَنْ يُتَقََطَّعُوا دُونَكَ، فَانْتَظِرْهُمْ , قَالَ: فَانْتَظَرَهُمْ، قُلْتُ: وَقَدْ أَصَبْتُ حِمَارَ وَحْشٍ، وَعِنْدِي مِنْهُ فَاضِلَةٌ , فَقَالَ لِلْقَوْمِ: " كُلُوا" , وَهُمْ مُحْرِمُونَ .
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے اس سفر میں ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے احرام باندھا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی بتادیا گیا تھا کہ " غیقہ " نامی جگہ میں دشمن سے آمنا سامنا ہوسکتا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوگئے میں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ چلا جا رہا تھا کہ اچانک وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے میں نے جب غور کیا تو مجھے ایک جنگلی گدھا نظر آیا میں نے ان سے مدد کی درخواست کی لیکن انہوں نے محرم ہونے کی وجہ سے میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا هشام الدستوائي ، حدثني يحيى بن ابي كثير ، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه ، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا بنا في الركعتين الاوليين من صلاة الظهر، ويسمعنا الآية احيانا، ويطول في الاولى، ويقصر في الثانية، وكان يفعل ذلك في صلاة الصبح يطول في الاولى، ويقصر في الثانية، وكان يقرا بنا في الركعتين الاوليين من صلاة العصر" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِنَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ، وَيُسْمِعُنَا الْآيَةَ أَحْيَانًا، وَيُطَوِّلُ فِي الْأُولَى، وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ يُطَوِّلُ فِي الْأُولَى، وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ، وَكَانَ يَقْرَأُ بِنَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ" .
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت فرماتے تھے تو ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قراءت فرماتے تھے جس کی کوئی آیت کبھی کبھار ہمیں سنا دیتے تھے اس میں بھی پہلی رکعت نسبتہ لمبی اور دوسری مختصر فرماتے تھے فجر کی نماز میں بھی اسی طرح کرتے تھے کہ پہلی رکعت لمبی اور دوسری اس کی نسبت مختصر پڑھاتے تھے اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں بھی قراءت فرماتے تھے۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیع وشراء میں زیادہ قسمیں کھانے سے بچا کرو کیونکہ اس سے سودا تو بک جاتا ہے لیکن اس کی برکت ختم ہوجاتی ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عثمان بن عبد الله بن موهب يحدث، عن عبد الله بن ابي قتادة ، عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي برجل من الانصار ليصلي عليه، فقال: " صلوا على صاحبكم، فإن عليه دينا , قال: فقال ابو قتادة: هو علي يا رسول الله قال: بالوفاء؟ , قال: بالوفاء , قال: فصلى عليه" ، وإنما كان عليه ثمانية عشر، او تسعة عشر درهما..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَإِنَّ عَلَيْهِ دَيْنًا , قَالَ: فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ: هُوَ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: بِالْوَفَاءِ؟ , قَالَ: بِالْوَفَاءِ , قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ" ، وَإِنَّمَا كَانَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ، أَوْ تِسْعَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا..
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ہی پڑھ لو کیونکہ اس پر کسی کا قرض ہے اس پر حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کا قرض میرے ذمے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا مکمل؟ انہوں نے عرض کیا جی مکمل چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی اور اس پر اٹھارہ انیس درہم کا قرض تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وفي ضوء طريق أخرى فهي منقطعة لأن عبدالله بن أبى قتادة لم يسمعه من أبيه