زہرہ ابو عقیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں بالغ ہوچکے تھے اور نکاح بھی کرلیا تھا۔
حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایام والی عورت کے ساتھ اکٹھے کھانا کھانے کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا تم کھا پی سکتے ہو۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگ اس وقت تک ہلاکت میں نہیں پڑیں گے جب تک اپنے گناہ کرتے کرتے کوئی عذر نہ چھوڑیں۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عاریت ادا کی جائے اور ہدیئے کا بدلہ دیا جائے قرض ادا کیا جائے اور قرض دار ضامن ہوگا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره ، وهذا إسناد ضعيف ، سعيد بن أبى سعيد اختلف فى تعيينه
حدثنا بهز ، حدثنا حماد ، اخبرنا إسحاق يعني ابن ابي طلحة ، عن ابي المنذر مولى ابي ذر , عن ابي امية المخزومي , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلص فاعترف، ولم يوجد معه متاع، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم" ما اخالك سرقت! قال: بلى، مرتين او ثلاثا، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقطعوه، ثم جيئوا به , قال: فقطعوه، ثم جاءوا به، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قل: استغفر الله واتوب إليه , قال: استغفر الله واتوب إليه , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اللهم تب عليه" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُنْذِرِ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ , عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلِصٍّ فَاعْتَرَفَ، وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَا أَخَالُكَ سَرَقْتَ! قَالَ: بَلَى، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْطَعُوهُ، ثُمَّ جِيئُوا بِهِ , قَالَ: فَقَطَعُوهُ، ثُمَّ جَاءُوا بِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُلْ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ , قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ" .
حضرت ابو امیہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور کو لایا گیا اس نے اعتراف جرم کرلیا لیکن اس کے پاس سے سامان نہیں مل سکا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا میرا خیال نہیں ہے کہ تم نے چوری کی ہوگی؟ اس نے دو تین مرتبہ کہا کیوں نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا ہاتھ کاٹ کر میرے پاس اسے واپس لاؤ چنانچھ اس کا ہاتھ کاٹ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا یوں کہو " استغفر اللہ واتوب الیہ " اس نے اسی طرح کہہ دیا " استغفر اللہ واتوب الیہ " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء فرمائی کہ اے اللہ اس کی توبہ قبول فرما۔
حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى المنذر
حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا ابو إسحاق ، عن زائدة ، عن عاصم بن كليب ، عن ابيه ، ان رجلا من الانصار اخبره، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة فلما رجعنا لقينا داعي امراة من قريش، فقال: يا رسول الله، إن فلانة تدعوك ومن معك إلى طعام فانصرف، فانصرفنا معه، فجلسنا مجالس الغلمان من آبائهم بين ايديهم، ثم جيء بالطعام، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، ووضع القوم ايديهم ففطن له القوم، وهو يلوك لقمته، لا يجيزها، فرفعوا ايديهم وغفلوا عنا، ثم ذكروا فاخذوا بايدينا، فجعل الرجل يضرب اللقمة بيده حتى تسقط، ثم امسكوا بايدينا، ينظرون ما يصنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلفظها، فالقاها، فقال: " اجد لحم شاة اخذت بغير إذن اهلها" , فقامت المراة، فقالت: يا رسول الله، إنه كان في نفسي ان اجمعك ومن معك على طعام، فارسلت إلى البقيع، فلم اجد شاة تباع، وكان عامر بن ابي وقاص ابتاع شاة امس من البقيع، فارسلت إليه ان ابتغي لي شاة في البقيع فلم توجد، فذكر لي انك اشتريت شاة، فارسل بها إلي، فلم يجده الرسول، ووجد اهله، فدفعوها إلى رسولي , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اطعموها الاسارى" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَخْبَرَهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جِنَازَةٍ فَلَمَّا رَجَعْنَا لَقِيَنَا دَاعِي امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فُلَانَةَ تَدْعُوكَ وَمَنْ مَعَكَ إِلَى طَعَامٍ فَانْصَرَفَ، فَانْصَرَفْنَا مَعَهُ، فَجَلَسْنَا مَجَالِسَ الْغِلْمَانِ مِنْ آبَائِهِمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، ثُمَّ جِيءَ بِالطَّعَامِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، وَوَضَعَ الْقَوْمُ أَيْدِيَهُمْ فَفَطِنَ لَهُ الْقَوْمُ، وَهُوَ يَلُوكُ لُقْمَتَهُ، لَا يُجِيزُهَا، فَرَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ وَغَفَلُوا عَنَّا، ثُمَّ ذَكَرُوا فَأَخَذُوا بِأَيْدِينَا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَضْرِبُ اللُّقْمَةَ بِيَدِهِ حَتَّى تَسْقُطَ، ثُمَّ أَمْسَكُوا بِأَيْدِينَا، يَنْظُرُونَ مَا يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَفَظَهَا، فَأَلْقَاهَا، فَقَالَ: " أَجِدُ لَحْمَ شَاةٍ أُخِذَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ أَهْلِهَا" , فَقَامَتْ الْمَرْأَةُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ كَانَ فِي نَفْسِي أَنْ أَجْمَعَكَ وَمَنْ مَعَكَ عَلَى طَعَامٍ، فَأَرْسَلْتُ إِلَى الْبَقِيعِ، فَلَمْ أَجِدْ شَاةً تُبَاعُ، وَكَانَ عَامِرُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ ابْتَاعَ شَاةً أَمْسِ مِنَ الْبَقِيعِ، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ أَنْ ابْتُغِيَ لِي شَاةٌ فِي الْبَقِيعِ فَلَمْ تُوجَدْ، فَذُكِرَ لِي أَنَّكَ اشْتَرَيْتَ شَاةً، فَأَرْسِلْ بِهَا إِلَيَّ، فَلَمْ يَجِدْهُ الرَّسُولُ، وَوَجَدَ أَهْلَهُ، فَدَفَعُوهَا إِلَى رَسُولِي , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَطْعِمُوهَا الْأُسَارَى" .
ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ ایک جنازے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے جب واپس ہوئے تو ہمیں قریش کی ایک عورت کا قاصد ملا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! فلاں عورت نے آپ کی اور آپ کے ہمراہ تمام لوگوں کی کھانے کی دعوت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور ہم بھی چلے گئے وہاں پہنچ کر ہم لوگ بیٹھ گئے اور کچھ لوگوں کے بچے ان کے آگے بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد کھانا لایا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا ہاتھ رکھا لوگوں نے اپنے ہاتھ بڑھائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لقمہ لے کر اسے چبا نے لگے لیکن وہ حلق میں سے نیچے نہیں اتر رہا تھا لوگ سمجھ گئے اور اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہماری طرف سے وہ غافل ہوچکے تھے پھر جب دھیان ہوا تو ہمارے ہاتھ بھی پکڑ لئے ایک آدمی لقمہ توڑنے لگا تو وہ اس کے ہاتھ سے گرگیا پھر وہ ہمارے ہاتھ روک کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھنے لگے کہ اب وہ کیا کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چبانے کی کوشش کی لیکن پھر اسے اگل دیا اور فرمایا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بکری اس کے مالک کی اجازت کے بغیر لی گئی ہے؟ یہ سن کر وہ عورت کھڑی ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میرے دل میں خیال آیا کہ آپ کو اور آپ کے ہمراہ تمام لوگوں کو کھانے پر جمع کروں چنانچہ میں نے بقیع کی طرف ایک آدمی کو بھیجا لیکن وہاں سے بکری نہیں ملی جبکہ عامر بن ابی وقاص نے کل شام ہی بقیع سے ایک بکری خریدی تھی میں نے انہیں پیغام بھیجا کہ بقیع میں میرے لئے بکری تلاش کی گئی ہے لیکن وہ نہیں مل سکی مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے بھی ایک بکری خریدی ہے آپ وہ میرے پاس بھیج دیں قاصد کو وہ اپنے گھر میں نہیں ملے البتہ ان کے گھر والے موجود تھے، انہوں نے وہ بکری میرے قاصد کو دے دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کھانا قیدیوں کو کھلا دو۔
حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، عن ابيه ، حدثنا السميط ، عن ابي السوار، حدثه ابو السوار ، عن خاله ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم واناس يتبعونه فاتبعته معهم، قال: ففجئني القوم يسعون، قال: وابقى القوم، فاتى علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فضربني ضربة، إما بعسيب او قضيب او سواك، وشيء كان معه، قال: فوالله ما اوجعني، قال: فبت بليلة، قال: او قلت: ما ضربني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا لشيء علمه الله في قال: وحدثتني نفسي , ان آتي رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اصبحت، قال: فنزل جبريل عليه السلام على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إنك راع، فلا تكسرن قرون رعيتك , قال: فلما صلينا الغداة او قال: صبحنا، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم إن اناسا يتبعوني، وإني لا يعجبني ان يتبعوني , اللهم فمن ضربت او سببت فاجعلها له كفارة واجرا" , او قال:" مغفرة ورحمة" , او كما قال.حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا السُّمَيْطُ ، عَنْ أَبِي السَّوَّارِ، حَدَّثَهُ أَبُو السَّوَّارِ ، عَنْ خَالِهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُنَاسٌ يَتْبَعُونَهُ فَأَتْبَعْتُهُ مَعَهُمْ، قَالَ: فَفَجِئَنِي الْقَوْمُ يَسْعَوْنَ، قَالَ: وَأَبْقَى الْقَوْمُ، فَأَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَرَبَنِي ضَرْبَةً، إِمَّا بِعَسِيبٍ أَوْ قَضِيبٍ أَوْ سِوَاكٍ، وَشَيْءٍ كَانَ مَعَهُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَوْجَعَنِي، قَالَ: فَبِتُّ بِلَيْلَةٍ، قَالَ: أَوْ قُلْتُ: مَا ضَرَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا لِشَيْءٍ عَلِمَهُ اللَّهُ فِيَّ قَالَ: وَحَدَّثَتْنِي نَفْسِي , أَنْ آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَصْبَحْتُ، قَالَ: فَنَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّكَ رَاعٍ، فَلَا تَكْسِرَنَّ قُرُونَ رَعِيَّتِكَ , قَالَ: فَلَمَّا صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ أَوْ قَالَ: صَبَّحْنَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ إِنَّ أُنَاسًا يَتْبَعُونِي، وَإِنِّي لَا يُعْجِبُنِي أَنْ يَتْبَعُونِي , اللَّهُمَّ فَمَنْ ضَرَبْتُ أَوْ سَبَبْتُ فَاجْعَلْهَا لَهُ كَفَّارَةً وَأَجْرًا" , أَوْ قَالَ:" مَغْفِرَةً وَرَحْمَةً" , أَوْ كَمَا قَالَ.
ابوالسوار اپنے ماموں سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ کچھ لوگ آپ کے پیچھے چل رہے ہیں میں بھی ان میں شامل ہوگیا اچانک لوگ دوڑنے لگے اور کچھ لوگ پیچھے رہ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے قریب پہنچ کر کسی ٹہنی، سرکنڈے، مسواک یا کسی اور چیز کے ساتھ ہلکی سی ضرب لگائی جو ان کے پاس تھی، لیکن بخدا! مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی رات ہوئی تو میں نے سوچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو مارا ہے وہ یقینا کسی ایسی بات پر ہوگا جو اللہ نے انہیں میرے متعلق بتادی ہوگی پھر میرے دل میں خیال آیا کہ صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دوں، ادھر حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ وحی لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے کہ آپ راعی ہیں لہٰذا اپنی رعیت کے سینگ نہ توڑیں۔
جب ہم نماز فجر سے فارغ ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ! کچھ لوگ میرے پیچھے چلتے ہیں اور مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ کوئی میرے پیچھے چلے اے اللہ! میں نے جسے مارا ہو یا سخت سست کہا ہو اسے اس کے لئے کفارہ اور باعث اجر بنا دے یا یہ فرمایا باعث مغفرت و رحمت بنا دے یا جیسے بھی فرمایا۔
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا هريم بن سفيان ، عن بيان ، عن قيس ، عن ابي شهم رضي الله عنه، قال: مرت بي جارية بالمدينة، فاخذت بكشحها، قال: واصبح الرسول يبايع الناس يعني النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فاتيته، فلم يبايعني، فقال: " صاحب الجبيذة! قال: قلت: والله لا اعود , قال:" فبايعني" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا هُرَيْمُ بْنُ سُفْيَانَ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي شَهْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: مَرَّتْ بِي جَارِيَةٌ بِالْمَدِينَةِ، فَأَخَذْتُ بِكَشْحِهَا، قَالَ: وَأَصْبَحَ الرَّسُولُ يُبَايِعُ النَّاسَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَلَمْ يُبَايِعْنِي، فَقَالَ: " صَاحِبُ الْجُبَيْذَةِ! قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَعُودُ , قَالَ:" فَبَايَعَنِي" .
حضرت ابو شہم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ایک باندی میرے پاس سے گذری تو میں نے اسے اس کے پہلو سے پکڑ لیا اگلے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے بیعت لینا شروع کی اور میں بھی حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیعت نہیں لی اور فرمایا تم باندی کو کھینچنے والے ہو؟ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم! آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بھی بیعت لے لی۔
حدثنا سريج ، حدثنا يزيد بن عطاء ، عن بيان بن بشر ، عن قيس بن ابي حازم ، عن ابي شهم رضي الله عنه، قال: كنت رجلا بطالا، قال: فمرت بي جارية في بعض طرق المدينة، إذ هويت إلى كشحها، فلما كان الغد، قال: فاتى الناس رسول الله صلى الله عليه وسلم يبايعونه، فاتيته فبسطت يدي لابايعه، فقبض يده، وقال: " احسبك صاحب الجبيذة يعني: اما إنك صاحب الجبيذة امس" , قال: قلت: يا رسول الله، بايعني، فوالله لا اعود ابدا , قال:" فنعم إذا" .حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ بَيَانِ بْنِ بِشْرٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي شَهْمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا بَطَّالًا، قَالَ: فَمَرَّتْ بِي جَارِيَةٌ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، إِذْ هَوَيْتُ إِلَى كَشْحِهَا، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ، قَالَ: فَأَتَى النَّاسُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَايِعُونَهُ، فَأَتَيْتُهُ فَبَسَطْتُ يَدِي لِأُبَايِعَهُ، فَقَبَضَ يَدَهُ، وَقَالَ: " أَحْسِبُكَ صَاحِبُ الْجُبَيْذَةِ يَعْنِي: أَمَا إِنَّكَ صَاحِبُ الْجُبَيْذَةِ أَمْسِ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْنِي، فَوَاللَّهِ لَا أَعُودُ أَبَدًا , قَالَ:" فَنَعَمْ إِذًا" .
حضرت ابو شہم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ایک باندی میرے پاس سے گذری تو میں نے اسے اس کے پہلو سے پکڑ لیا اگلے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے بیعت لینا شروع کی اور میں بھی حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیعت نہیں لی اور فرمایا تم باندی کو کھینچنے والے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے بیعت کرلیجئے اللہ کی قسم! آئندہ کبھی ایسا نہیں کروں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ٹھیک ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف ، يزيد بن عطاء فيه لين ، فقد توبع
حدثنا حسن ، حدثنا زهير ، حدثنا سماك بن حرب ، عن قابوس بن مخارق ، عن ابيه ، ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ارايت إن جاء رجل يريد ان يسرقني او ياخذ مني مالي ما تامرني به؟ قال: " تعظم عليه بالله , قال: فإن فعلت فلم ينته؟ قال: تستعدي السلطان , قال: فإن لم يكن بقربي منهم احد؟ قال: تجاهده او تقاتله حتى تكتب في شهداء الآخرة، او تمنع مالك" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ مُخَارِقٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ جَاءَ رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَسْرِقَنِي أَوْ يَأْخُذَ مِنِّي مَالِي مَا تَأْمُرُنِي بِهِ؟ قَالَ: " تُعْظِّمُ عَلَيْهِ بِاللَّهِ , قَالَ: فَإِنْ فَعَلْتُ فَلَمْ يَنْتَهِ؟ قَالَ: تَسْتَعْدِي السُّلْطَانَ , قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ بِقُرْبِي مِنْهُمْ أَحَدٌ؟ قَالَ: تُجَاهِدُهُ أَوْ تُقَاتِلُهُ حَتَّى تُكْتَبَ فِي شُهَدَاءِ الْآخِرَةِ، أَوْ تَمْنَعَ مَالَكَ" .
حضرت مخارق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی میرے یہاں چوری کرنے یا میرا مال چھیننے کی نیت سے میرے پاس آئے تو آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اہمیت واضح کرو، اس نے کہا کہ اگر میں ایسا کرتا ہوں لیکن وہ اپنے ارادے سے پھر بھی باز نہیں آتا تو کیا کروں؟ فرمایا بادشاہ سے اس کے خلاف مدد حاصل کرو، اس نے پوچھا کہ اگر میرے پاس کوئی اور مسلمان نہ ہو (اور وہ مجھ پر فوراً حملہ کر دے) تو کیا کروں؟ فرمایا پھر تم بھی اس سے لڑو یہاں تک کہ تم شہداء آخرت میں لکھے جاؤ یا اپنے مال کو بچالو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد حسن إن كان متصلا ، ففي صحبة مخارق خلاف