حضرت سلمہ بن نعیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس حال میں اللہ سے ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو کر رہے گا خواہ وہ بدکاری یا چوری ہی کرتا ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سالم بن أبى الجعد مشهور بالإرسال، ولم يصرح بسماعه من سلمة بن نعيم
حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا ابو إسحاق ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عمرو الشيباني ، قال: جاء رعية السحيمي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اغير على ولدي ومالي! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما المال فقد اقتسم، واما الولد فاذهب معه يا بلال، فإن عرف ولده فادفعه إليه" , قال: فذهب معه فاراه إياه، فقال: تعرفه؟ قال: نعم , فدفعه، فذهب إليه , قال سفيان: يرون انه اسلم قبل ان يغار عليه.حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ ، قَالَ: جَاءَ رِعْيَةُ السُّحَيْمِيُّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أُغِيرَ عَلَى وَلَدِي وَمَالِي! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا الْمَالُ فَقَدْ اقْتُسِمَ، وَأَمَّا الْوَلَدُ فَاذْهَبْ مَعَهُ يَا بِلَالُ، فَإِنْ عَرَفَ وَلَدَهُ فَادْفَعْهُ إِلَيْهِ" , قَالَ: فَذَهَبَ مَعَهُ فَأَرَاهُ إِيَّاهُ، فَقَالَ: تَعْرِفُهُ؟ قَالَ: نَعَمْ , فَدَفَعَهُ، فَذَهَبَ إِلَيْهِ , قَالَ سُفْيَانُ: يَرَوْنَ أَنَّهُ أَسْلَمَ قَبْلَ أَنْ يُغَارَ عَلَيْهِ.
حضرت رعیہ سحیمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے بیٹے اور مال کو حملہ کر کے چھین لیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا مال تو تقسیم ہوچکا البتہ بلال! انہیں اپنے ساتھ ان کے بچے کے پاس لے جاؤ اگر ان کا بچہ انہیں شناخت کرے تو اسے ان کے حوالے کردو، چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ انہیں اپنے ساتھ لے گئے اور ان کا بیٹا دکھا دیا اور اس سے پوچھا کہ تم انہیں پہچانتے ہو؟ اس نے اعتراف کیا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ انہیں اسے ان کے حوالے کردیا۔
سفیان کہتے ہیں کہ علماء کا خیال ہے کہ رعیہ قبل از حملہ اسلام قبول کرچکے تھے۔
فائدہ۔ مکمل وضاحت کے لئے حدیث پڑھیے۔
حدثنا محمد بن بكر ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن الشعبي ، عن رعية السحيمي ، قال: كتب إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم في اديم احمر، فاخذ كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرقع به دلوه، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية فلم يدعوا له رائحة ولا سارحة، ولا اهلا ولا مالا إلا اخذوه، وانفلت عريانا على فرس له ليس عليه قشرة، حتى ينتهي إلى ابنته، وهي متزوجة في بني هلال، وقد اسلمت واسلم اهلها، وكان مجلس القوم بفناء بيتها، فدار حتى دخل عليها من وراء البيت، قال: فلما راته القت عليه ثوبا، قالت: ما لك؟ قال: كل الشر نزل بابيك، ما ترك له رائحة ولا سارحة، ولا اهل ولا مال إلا وقد اخذ قالت: دعيت إلى الإسلام قال: اين بعلك؟ قالت: في الإبل , قال: فاتاه، فقال: ما لك؟ قال: كل الشر قد نزل به، ما تركت له رائحة ولا سارحة، ولا اهل ولا مال إلا وقد اخذ وانا اريد محمدا ابادره قبل ان يقسم اهلي ومالي , قال: فخذ راحلتي برحلها , قال: لا حاجة لي فيها , قال: فاخذ قعود الراعي، وزوده إداوة من ماء , قال: وعليه ثوب إذا غطى به وجهه خرجت استه، وإذا غطى استه خرج وجهه، وهو يكره ان يعرف، حتى انتهى إلى المدينة، فعقل راحلته ثم اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكان بحذائه حيث يصلي، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الفجر، قال: يا رسول الله، ابسط يديك فلابايعك، فبسطها، فلما اراد ان يضرب عليها قبضها إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ففعل النبي صلى الله عليه وسلم ذلك ثلاثا قبضها إليه ويفعله، فلما كانت الثالثة، قال:" من انت؟" قال: رعية السحيمي، قال: فتناول رسول الله صلى الله عليه وسلم عضده ثم رفعه، ثم قال:" يا معشر المسلمين هذا رعية السحيمي الذي كتبت إليه، فاخذ كتابي فرقع به دلوه" , فاخذ يتضرع إليه، قلت: يا رسول الله، اهلي ومالي قال:" اما مالك فقد قسم، واما اهلك فمن قدرت عليه منهم" , فخرج، فإذا ابنه قد عرف الراحلة، وهو قائم عندها، فرجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: هذا ابني فقال:" يا بلال، اخرج معه فسله ابوك هذا؟ فإن قال: نعم، فادفعه إليه" فخرج بلال إليه، فقال: ابوك هذا؟ قال: نعم , فرجع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ما رايت احدا استعبر إلى صاحبه، فقال:" ذاك جفاء الاعراب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ رِعْيَةَ السُّحَيْمِيِّ ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَدِيمٍ أَحْمَرَ، فَأَخَذَ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَقَعَ بِهِ دَلْوَهُ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً فَلَمْ يَدَعُوا لَهُ رَائِحَةً وَلَا سَارِحَةً، وَلَا أَهْلًا وَلَا مَالًا إِلَّا أَخَذُوهُ، وَانْفَلَتَ عُرْيَانًا عَلَى فَرَسٍ لَهُ لَيْسَ عَلَيْهِ قِشْرَةٌ، حَتَّى يَنْتَهِيَ إِلَى ابْنَتِهِ، وَهِيَ مُتَزَوِّجَةٌ فِي بَنِي هِلَالٍ، وَقَدْ أَسْلَمَتْ وَأَسْلَمَ أَهْلُهَا، وَكَانَ مَجْلِسُ الْقَوْمِ بِفِنَاءِ بَيْتِهَا، فَدَارَ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا مِنْ وَرَاءِ الْبَيْتِ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْهُ أَلْقَتْ عَلَيْهِ ثَوْبًا، قَالَتْ: مَا لَكَ؟ قَالَ: كُلُّ الشَّرِّ نَزَلَ بِأَبِيكِ، مَا تُرِكَ لَهُ رَائِحَةٌ وَلَا سَارِحَةٌ، وَلَا أَهْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ قَالَتْ: دُعِيتَ إِلَى الْإِسْلَامِ قَالَ: أَيْنَ بَعْلُكِ؟ قَالَتْ: فِي الْإِبِلِ , قَالَ: فَأَتَاهُ، فَقَالَ: مَا لَكَ؟ قَالَ: كُلُّ الشَّرِّ قَدْ نَزَلَ بِهِ، مَا تُرِكَتْ لَهُ رَائِحَةٌ وَلَا سَارِحَةٌ، وَلَا أَهْلٌ وَلَا مَالٌ إِلَّا وَقَدْ أُخِذَ وَأَنَا أُرِيدُ مُحَمَّدًا أُبَادِرُهُ قَبْلَ أَنْ يُقَسِّمَ أَهْلِي وَمَالِي , قَالَ: فَخُذْ رَاحِلَتِي بِرَحْلِهَا , قَالَ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهَا , قَالَ: فَأَخَذَ قَعُودَ الرَّاعِي، وَزَوَّدَهُ إِدَاوَةً مِنْ مَاءٍ , قَالَ: وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ إِذَا غَطَّى بِهِ وَجْهَهُ خَرَجَتْ اسْتُهُ، وَإِذَا غَطَّى اسْتَهُ خَرَجَ وَجْهُهُ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يُعْرَفَ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْمَدِينَةِ، فَعَقَلَ رَاحِلَتَهُ ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ بِحِذَائِهِ حَيْثُ يُصَلِّي، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْسُطْ يَدَيْكَ فَلْأُبَايِعْكَ، فَبَسَطَهَا، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَضْرِبَ عَلَيْهَا قَبَضَهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَفَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ ثَلَاثًا قَبَضَهَا إِلَيْهِ وَيَفْعَلُهُ، فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ، قَالَ:" مَنْ أَنْتَ؟" قَالَ: رِعْيَةُ السُّحَيْمِيُّ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَضُدَهُ ثُمَّ رَفَعَهُ، ثُمَّ قَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ هَذَا رِعْيَةُ السُّحَيْمِيُّ الَّذِي كَتَبْتُ إِلَيْهِ، فَأَخَذَ كِتَابِي فَرَقَعَ بِهِ دَلْوَهُ" , فَأَخَذَ يَتَضَرَّعُ إِلَيْهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَهْلِي وَمَالِي قَالَ:" أَمَّا مَالُكَ فَقَدْ قُسِّمَ، وَأَمَّا أَهْلُكَ فَمَنْ قَدَرْتَ عَلَيْهِ مِنْهُمْ" , فَخَرَجَ، فَإِذَا ابْنُهُ قَدْ عَرَفَ الرَّاحِلَةَ، وَهُوَ قَائِمٌ عِنْدَهَا، فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَذَا ابْنِي فَقَالَ:" يَا بِلَالُ، اخْرُجْ مَعَهُ فَسَلْهُ أَبُوكَ هَذَا؟ فَإِنْ قَالَ: نَعَمْ، فَادْفَعْهُ إِلَيْهِ" فَخَرَجَ بِلَالٌ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَبُوكَ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ , فَرَجَعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا رَأَيْتُ أَحَدًا اسْتَعْبَرَ إِلَى صَاحِبِهِ، فَقَالَ:" ذَاكَ جَفَاءُ الْأَعْرَابِ" .
حضرت رعیہ سحیمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سرخ چمڑے پر لکھا ہوا ایک خط آیا انہوں نے اسے اپنے ڈول کا پیوند بنا لیا، کچھ عرصے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاقے میں ایک لشکر روانہ فرما دیا جس نے ان کے پاس کچھ بھی نہ چھوڑا نہ اہل خانہ اور نہ مال و دولت بلکہ سب کچھ لے گئے وہ برہنہ ایک گھوڑے پر " جو پالان سے محروم تھا " جان بچا کر بھاگے اور اپنی بیٹی کے پاس پہنچے جس کی شادی بنو ہلال میں ہوئی تھی اور اس کے گھر والوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیا تھا اور اس کے گھر کا صحن لوگوں کی بیٹھک ہوتا تھا اس لئے وہ گھوم کر پچھلے حصے سے گھر میں داخل ہوئے، ان کی بیٹی نے انہیں اس حال میں دیکھ کر پہننے کے لئے کپڑے دیئے اور پوچھا کہ کیا ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ تیرے باپ پر بڑی سخت مصیبت آئی، اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا اہل خانہ اور نہ ہی مال و دولت، سب کچھ چھین لیا گیا اس نے پوچھا کہ آپ کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی؟ لیکن انہوں نے اس کا جواب دیئے بغیر پوچھا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟ اس نے بتایا اونٹوں کے پاس ہیں۔
پھر وہ اپنے داماد کے پاس گئے اس نے بھی پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا؟ انہوں نے وہی جواب دیا اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے اہل خانہ اور مال کے تقسیم ہونے سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاؤں، اس نے کہا کہ پھر آپ میری سواری لے جائیں انہوں نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں پھر اس نے چرواہے کا ایک جوان اونٹ لیا اور ایک برتن میں پانی کا توشہ دے کر روانہ کردیا ان کے جسم پر ایک کپڑا تھا لیکن وہ اتنا چھوٹا تھا اگر اس سے چہرہ ڈھانپتے تو جسم کا نچلا حصہ برہنہ ہوجاتا اور اگر نچلے حصے کو ڈھانپتے تو چہرہ نظر آتا تھا اور وہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ انہیں کوئی شناخت کرلے۔
بہرحال! وہ مدینہ منورہ پہنچے اپنی سواری کو باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہاتھ بڑھائیے کہ میں آپ کی بیعت کروں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک آگے بڑھایا جب انہوں نے اپنا ہاتھ اس پر رکھنا چاہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک پیچھے کھینچ لیا تین مرتبہ اسی طرح ہوا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ عرض کیا کہ میں رعیہ سحیمی ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اسے بلند کیا اور فرمایا اے گروہ مسلمین! یہ رعیہ سحیمی ہے جس کی طرف میں نے خط لکھا تھا اور اس نے میرا خط پکڑ کر اپنے ڈول کا پیوند بنا لیا تھا۔
پھر انہوں نے نہایت عاجزی سے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے اہل خانہ اور میرا مال واپس کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا مال تو تقسیم ہوچکا البتہ تمہارے جو اہل خانہ تمہیں مل جائیں وہ تمہارے ہی ہیں چنانچہ وہ باہر نکلے تو ان کا بیٹا ان کی سواری کو پہچان کر کے اس کے پاس کھڑا تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال! اس کے ساتھ جاؤ اس لڑکے سے پوچھو کہ کیا یہ تیرا باپ ہے؟ اگر وہ اقرار کرلے تو اسے ان کے حوالے کردو چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ان دونوں میں سے کسی کو بھی ایک دوسرے سے مل کر آنسو بہاتے ہوئے نہیں دیکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی تو دیہاتیوں کی سخت دلی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده منقطع، لم يصرح الشعبي بالسماع من رعية
حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرني يعلى بن عطاء ، عن ابي همام ، قال: ابو الاسود هو عبد الله بن يسار , عن ابي عبد الرحمن الفهري ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة حنين، فسرنا في يوم قائظ شديد الحر، فنزلنا تحت ظلال الشجر، فلما زالت الشمس لبست لامتي وركبت فرسي، فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في فسطاطه، فقلت: السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله، حان الرواح؟ فقال:" اجل"، فقال: يا بلال فثار من تحت سمرة كان ظله ظل طائر، فقال: لبيك وسعديك، وانا فداؤك، فقال: اسرج لي فرسي فاخرج سرجا دفتاه من ليف ليس فيهما اشر ولا بطر، قال: فاسرج , قال: فركب وركبنا، فصاففناهم عشيتنا وليلتنا فتشامت الخيلان، فولى المسلمون مدبرين كما قال: الله عز وجل، فقال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا عباد الله، انا عبد الله ورسوله" ثم قال:" يا معشر المهاجرين انا عبد الله ورسوله" , قال: ثم اقتحم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن فرسه فاخذ كفا من تراب، فاخبرني الذي كان ادنى إليه مني ضرب به وجوههم، وقال:" شاهت الوجوه" , فهزمهم الله عز وجل , قال يعلى بن عطاء: فحدثني ابناؤهم، عن آبائهم، انهم قالوا: لم يبق منا احد إلا امتلات عيناه وفمه ترابا، وسمعنا صلصلة بين السماء والارض كإمرار الحديد على الطست الحديد..حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِي هَمَّامٍ ، قَالَ: أَبُو الْأَسْوَدِ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ حُنَيْنٍ، فَسِرْنَا فِي يَوْمٍ قَائِظٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلَالِ الشَّجَرِ، فَلَمَّا زَالَتْ الشَّمْسُ لَبِسْتُ لَأْمَتِي وَرَكِبْتُ فَرَسِي، فَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي فُسْطَاطِهِ، فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، حَانَ الرَّوَاحُ؟ فَقَالَ:" أَجَلْ"، فَقَالَ: يَا بِلَالُ فَثَارَ مِنْ تَحْتِ سَمُرَةٍ كَأَنَّ ظِلَّهُ ظِلُّ طَائِرٍ، فَقَالَ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَأَنَا فِدَاؤُكَ، فَقَالَ: أَسْرِجْ لِي فَرَسِي فَأَخْرَجَ سَرْجًا دَفَّتَاهُ مِنْ لِيفٍ لَيْسَ فِيهِمَا أَشَرٌ وَلَا بَطَرٌ، قَالَ: فَأَسْرَجَ , قَالَ: فَرَكِبَ وَرَكِبْنَا، فَصَافَفْنَاهُمْ عَشِيَّتَنَا وَلَيْلَتَنَا فَتَشَامَّتِ الْخَيْلَانِ، فَوَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ كَمَا قَالَ: اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عِبَادَ اللَّهِ، أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ" ثُمَّ قَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ" , قَالَ: ثُمَّ اقْتَحَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَرَسِهِ فَأَخَذَ كَفًّا مِنْ تُرَابٍ، فَأَخْبَرَنِي الَّذِي كَانَ أَدْنَى إِلَيْهِ مِنِّي ضَرَبَ بِهِ وُجُوهَهُمْ، وَقَالَ:" شَاهَتْ الْوُجُوهُ" , فَهَزَمَهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , قَالَ يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ: فَحَدَّثَنِي أَبْنَاؤُهُمْ، عَنْ آبَائِهِمْ، أَنَّهُمْ قَالُوا: لَمْ يَبْقَ مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا امْتَلَأَتْ عَيْنَاهُ وَفَمُهُ تُرَابًا، وَسَمِعْنَا صَلْصَلَةً بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ كَإِمْرَارِ الْحَدِيدِ عَلَى الطَّسْتِ الْحَدِيدِ..
حضرت ابو عبدالرحمن فہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ حنین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا ہم شدید گرمی کے ایک گرم ترین دن میں روانہ ہوئے راستے میں ایک جگہ سایہ دار درختوں کے نیچے پڑاؤ کیا، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنا اسلحہ زیب تن کیا اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تھے میں نے السلام علیک یا رسول اللہ " کہہ کر پوچھا کہ کوچ کا وقت ہوگیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آواز دی وہ ببول کے نیچے سے اس طرح کودے جیسے کسی پرندے کا سایہ ہو اور عرض کیا لبیک وسعدیک، میں آپ پر قربان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے گھوڑے پر زین کس دو، چنانچہ انہوں نے ایک زین نکالی جس کے دونوں کنارے کھجور کی چھال سے بھرے ہوئے تھے اور جس میں کوئی غرور وتکبر نہ تھا اور اسے کس دیا۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوگئے میدان جنگ میں عشاء کے وقت سے ساری رات ہم لوگ صف بندی کرتے رہے جب دونوں جماعتوں کے گھوڑے ایک دوسرے میں گھسے تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگ اٹھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ کے بندو! میں اللہ کا بندہ اور رسول تو یہاں موجود ہوں پھر فرمایا اے گروہ مہاجرین! میں اللہ کا بندہ اور رسول تو یہاں موجود ہوں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے سے کودے اور مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریبی آدمی کی اطلاع کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی دشمن کے چہروں پر پھینک دی اور فرمایا یہ چہرے بگڑ جائیں، چنانچہ اللہ نے مشرکین کو شکت سے دو چار کردیا۔ مشرکین خود اپنے بیٹوں سے کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک بھی آدمی ایسا نہ بچا جس کی آنکھیں اور منہ مٹی سے نہ بھر گیا ہو اور ہم نے زمین و آسمان کے درمیان ایسی آواز سنی جیسے لوہے کو لوہے کی پلیٹ پر گذارنے سے پیدا ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى همام عبدالله بن يسار
حضرت نعیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! تو دن کے پہلے حصے میں چار رکعتیں پڑھنے سے اپنے آپ کو عاجز ظاہر نہ کر میں دن کے آخری حصے تک تیری کفایت کروں گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد صحيح إن ثبت تصريح سماع كثير بن مرة من نعيم بن همار، وإلا فيصح الحديث بالاسناد الذى بُيِّنَتْ فيه الواسطة، وهو قيس الجذامي
حضرت نعیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! تو دن کے پہلے حصے میں میری رضا کے لئے چار رکعتیں پڑھ لیا کر میں دن کے آخری حصے تک تیری کفایت کروں گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، مكحول لم يسمعه من نعيم
حضرت نعیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! تو دن کے پہلے حصے میں میری رضا کے لئے چار رکعتیں پڑھ لیا کر میں دن کے آخری حصے تک تیری کفایت کروں گا۔
حضرت نعیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! تو دن کے پہلے حصے میں میری رضا کے لئے چار رکعتیں پڑھ لیا کر میں دن کے آخری حصے تک تیری کفایت کروں گا۔
حضرت نعیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! تو دن کے پہلے حصے میں میری رضا کے لئے چار رکعتیں پڑھ لیا کر میں دن کے آخری حصے تک تیری کفایت کروں گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لكن من مسند نعيم بن همار أو عقبة بن عامر، والرواية عن أبى مرة الطائفي هنا شاذة