حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن سلمة بن كهيل ، عن هلال بن يساف ، عن سمرة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " افضل الكلام بعد القرآن وهو من القرآن اربع، لا يضرك بايهن بدات: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله اكبر" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يِسَافٍ ، عَنْ سَمُرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ الْكَلَامِ بَعْدَ الْقُرْآنِ وَهِو مِنَ الْقُرْآنِ أرَبعٌ، لَا يَضُرُّكَ بِأَيِّهِنَّ بَدَأْتَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ" .
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک قرآن کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ کلمات چار ہیں لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ اور الحمدللہ ان میں سے جس سے بھی آغاز کرو کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن كان هلال بن يساف سمعه من سمرة
حدثنا محمد بن جعفر , وعفان , قالا: حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن ابن ابي ليلى , قال عفان في حديثه: اخبرنا الحكم، قال: سمعت ابن ابي ليلى , عن سمرة بن جندب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من روى عني حديثا وهو يرى انه كذب، فهو احد الكاذبين" , وقال عفان ايضا: الكذابين.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى , قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى , عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ رَوَى عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ" , وَقَالَ عَفَّانُ أَيْضًا: الْكَذَّابِينَ.
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص میرے حوالے سے کوئی حدیث نقل کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ حدیث جھوٹی ہے تو وہ دو میں جھوٹا ایک ہے۔
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بہت کم کسی خطبے میں ایسا ہوتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم نہ دیا ہو اور اس میں مثلہ کرنے کی ممانعت نہ کی ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، الحسن مدلس، وقد عنعن
حدثنا حجاج ، حدثنا شعبة ، عن سماك ، قال: سمعت المهلب بن ابي صفرة ، قال: قال سمرة بن جندب ، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تصلوا حين تطلع الشمس، فإنها تطلع بين قرني شيطان ولا حين تغيب، فإنها تغيب بين قرني شيطان" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سِمَاكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُهَلَّبَ بْنَ أَبِي صُفْرَةَ ، قَالَ: قَالَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُصَلُّوا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَلَا حِينَ تَغِيبُ، فَإِنَّهَا تَغِيبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ" .
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورج کے طلوع یا غروب ہونے کے وقت نماز نہ پڑھا کرو کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہوتا ہے۔
حدثنا ابو كامل ، حدثنا حماد ، عن حميد ، عن الحسن ، عن سمرة بن جندب , ان النبي صلى الله عليه وسلم: كان يسكت سكتتين إذا دخل في الصلاة، وإذا فرغ من القراءة" ، فانكر ذلك عمران بن حصين، فكتبوا إلى ابي بن كعب يسالونه عن ذلك، فكتب: ان صدق سمرة.حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَن حُمَيْدٍ ، عَن الْحَسَنِ ، عَن سَمُرَةَ بن جُندب , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَسْكُتُ سَكْتَتَيْنِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ" ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَكَتَبُوا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ يَسْأَلُونَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَكَتَبَ: أَنْ صَدَقَ سَمُرَةُ.
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دو مرتبہ سکوت فرماتے تھے ایک مرتبہ نماز شروع کرکے اور ایک مرتبہ قرأت سے فارغ ہو کر حضرت عمران بن حصین کا کہنا ہے کہ مجھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ یاد نہیں ان دونوں نے اس سلسلے میں حضرت ابی بن کعب کی طرف خط لکھا جس میں ان سے یہ دریافت کیا حضرت ابی بن کعب نے جواب میں حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق کی۔
ابن سیرین فرماتے تھے کہ میں نے اپنی تلوار حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کی تلوار جیسی بنائی ہے اور حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی تلوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار جیسی بنائی ہے اور وہ دین حنیف پر قائم تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عثمان بن سعد، وقد اضطرب
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مشرکین کے بوڑھوں کو قتل کردو اور ان کے جوانوں کوز ندہ چھوڑ دو۔
فائدہ: امام احمد کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس حدیث کی وضاحت دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ بوڑھا آدمی عام طور پر اسلام قبول نہیں کرتا اور جوان کرلیتا ہے گویا جوان اسلام کے زیادہ قریب ہوتا ہے بہ نسبت بوڑھے کے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحسن البصري مدلس، وقد عنعن
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا الثوري ، حدثني ابي ، عن الشعبي ، عن سمعان بن مشنج ، عن سمرة بن جندب , قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في جنازة فقال: " اههنا من بني فلان احد؟" قالها ثلاثا، فقام رجل، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ما منعك في المرتين الاوليين ان تكون اجبتني؟ اما إني لم انوه بك إلا لخير، إن فلانا لرجل منهم مات إنه ماسور بدينه" , قال: لقد رايت اهله ومن يتحزن له قضوا عنه حتى ما جاء احد يطلبه بشيء..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَن سَمْعَانَ بْنِ مُشَنَّجٍ ، عَن سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ , قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَقَالَ: " أَهَهُنَا مِنْ بَنِي فُلَانٍ أَحَدٌ؟" قَالَهَا ثَلَاثًا، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مَنَعَكَ فِي الْمَرَّتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ أَنْ تَكُونَ أَجَبْتَنِي؟ أَمَا إِنِّي لَمْ أُنَوِّهْ بِكَ إِلَّا لِخَيْرٍ، إِنَّ فُلَانًا لِرَجُلٍ مِنْهُمْ مَاتَ إِنَّهُ مَأْسُورٌ بِدَيْنِهِ" , قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُ أَهْلَهُ وَمَنْ يَتَحَزَّنُ لَهُ قَضَوْا عَنْه حَتَّى مَا جَاءَ أَحَدٌ يَطْلُبُهُ بِشَيْءٍ..
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جنازے میں تھے نماز کے بعد تین مرتبہ فرمایا کہ یہاں فلاں قبیلے کا کوئی آدمی ہے؟ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا جی ہاں! (ہم موجود ہیں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے پہلی مرتبہ میں جواب کیوں نہیں دیا؟ میں نے تمہیں اچھے مقصد کے لئے پکارا تھا تمہارا ساتھی جو فوت ہوگیا ہے اپنے ایک قرض کے سلسلے میں جنت کے دروازے پر روک لیا گیا ہے (لہذا تم اس کا قرض ادا کردو) راوی کہتے ہیں کہ پھر میں نے اس کے اہل خانہ اور اس کا غم رکھنے والوں کو دیکھا کہ انہوں نے اس کا قرض ادا کردیا اور پھر کوئی مطالبہ کرنے والا نہ آیا۔