حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة : ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " كل غلام مرتهن بعقيقته، تذبح يوم سابعه، ويحلق راسه، ويدمى"..حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كُلُّ غُلَامٍ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ، تُذْبَحُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ، وَيُدَمَّى"..
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے عوض گروی لکھا ہوا ہے لہذا اس کی طرف سے ساتویں دن قربانی کیا کرو اسی دن اس کا نام رکھا جائے اور سر کے بال مونڈے جائیں۔
حدثنا عفان، حدثنا ابان العطار، حدثنا قتادة، عن الحسن، عن سمرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله، إلا انه قال:" ويسمى" قال همام في حديثه: وراجعناه: ويدمى؟ قال همام: فكان قتادة يصف الدم , فيقول: إذا ذبح العقيقة تؤخذ صوفة فتستقبل اوداج الذبيحة، ثم توضع على يافوخ الصبي، حتى إذا سال غسل راسه، ثم حلق بعد .حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" وَيُسَمَّى" قَالَ هَمَّامٌ فِي حَدِيثِهِ: وَرَاجَعْنَاهُ: وَيُدَمَّى؟ قَالَ هَمَّامٌ: فَكَانَ قَتَادَةُ يَصِفُ الدَّمَ , فَيَقُولُ: إِذَا ذَبَحَ الْعَقِيقَةَ تُؤْخَذُ صُوفَةٌ فَتُسْتَقْبَلُ أَوْدَاجُ الذَّبِيحَةِ، ثُمَّ تُوضَعُ عَلَى يَافُوخِ الصَّبِيِّ، حَتَّى إِذَا سَالَ غُسِلَ رَأْسُهُ، ثُمَّ حُلِقَ بَعْدُ .
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مراد ہے البتہ اس میں راوی حدیث قتادہ نے جانور ذبح کرنے کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے کہ اون یا روئی کا ٹکڑا لے کر ذبح شدہ جانور کی رگوں کے سامنے کھڑا ہو پھر اس بچے کے سر پر رکھ دیا جائے جب وہ خون بہنے لگے تو اس کا سر دھو کر پھر اس کے بال مونڈ دیئے جائیں۔
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، اخبرنا قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " جار الدار احق بالدار من غيره" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ سَمُرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ مِنْ غَيْرِهِ" .
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گھر کا پڑوسی دوسرے کی نسبت اس گھر کا زیادہ حق دار ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحسن مدلس، وقد عنعن
حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا سليمان يعني التيمي ، عن ابي العلاء ، عن سمرة بن جندب :" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بقصعة فيها ثريد، فتعاقبوها إلى الظهر من غدوة، يقوم ناس ويقعد آخرون، قال له رجل: هل كانت تمد؟ قال: فمن اي شيء تعجب؟ ما كانت تمد إلا من هاهنا واشار إلى السماء" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ :" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقَصْعَةٍ فِيهَا ثَرِيدٌ، فَتَعَاقَبُوهَا إِلَى الظُّهْرِ مِنْ غُدْوَةٍ، يَقُومُ نَاسٌ وَيَقْعُدُ آخَرُونَ، قَالَ لَهُ رَجُلٌ: هَلْ كَانَتْ تُمَدُّ؟ قَالَ: فَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَعْجَبُ؟ مَا كَانَتْ تُمَدُّ إِلَّا مِنْ هَاهُنَا وَأَشَارَ إِلَى السَّمَاءِ" .
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک ثرید کا ایک پیالہ لایا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا اور لوگوں نے بھی اسے کھایا ظہر کے قریب تک اسے لوگ کھاتے رہے کہ ایک قوم آ کر کھاتی وہ کھڑی ہوجاتی تو اس کے بعد دوسری قوم آجاتی اور یہ سلسلہ چلتا رہا کسی آدمی نے پوچھا کہ اس پیالے میں برابر کھانا ڈالا جارہا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں تعجب کس بات پر ہورہا ہے آسمان سے اس میں برکت پیدا کردی گئی ہے۔
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کریں گے اور جو اپنے غلام کی ناک کاٹے گا ہم اس کی ناک کاٹیں گے۔ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو اپنے غلام کو خصی کرے گا ہم اسے خصی کردیں گے۔
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ عمدہ اور پاکیزہ ہوتے ہیں اور اپنے مردوں کو ان ہی میں دفن کیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، رواية ميمون عن الصحابة منقطعة
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بعینہ اپنا سامان کسی شخص کے پاس دیکھے وہ اس کا زیادہ حق دار ہے اور مشتری (خریدنے والا) بائع (بچنے والا) سے اپنی قیمت وصول کرلے گا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج بن أرطاة مدلس، وقد عنعن