حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي حمزة ، عن زيد بن ارقم ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما انتم جزء من مئة الف او: من سبعين الفا ممن يرد علي الحوض"، قال: فسالوه: كم كنتم؟ فقال: ثمان مئة، او: سبع مئة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَنْتُمْ جُزْءٌ مِنْ مِئَةِ أَلْفٍ أَوْ: مِنْ سَبْعِينَ أَلْفًا مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ"، قَالَ: فَسَأَلُوهُ: كَمْ كُنْتُمْ؟ فَقَالَ: ثَمَانِ مِئَةٍ، أَوْ: سَبْعَ مِئَةٍ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سفر میں ایک مقام پر پڑاؤ کرکے فرمایا تم لوگ قیامت کے دن میرے پاس حوض کوثر پر آنے والوں کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو ہم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس وقت آپ لوگ کتنے تھے؟ انہوں نے فرمایا سات سویا آٹھ سو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو حمزة مجهول. وقوله الحافظ ابن حجر : "وثقة النسائي" وهم
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! انصار کی، ان کی بیٹوں کی اور ان کی پوتوں کی مغفرت فرما۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے کوئی حدیث سنانے کی فرمائش کرتے تو وہ فرماتے کہ ہم بوڑھے ہوگئے اور بھول گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حدیث بیان کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن المغيرة ، عن ابي عبيد ، عن ميمون ابي عبد الله ، قال: قال زيد بن ارقم ، وانا اسمع: نزلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بواد يقال له: وادي خم، فامر بالصلاة، فصلاها بهجير، قال فخطبنا، وظلل لرسول الله صلى الله عليه وسلم بثوب على شجرة سمرة من الشمس، فقال:" الستم تعلمون او لستم تشهدون اني اولى بكل مؤمن من نفسه؟ قالوا: بلى، قال: فمن كنت مولاه، فإن عليا مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، وَأَنَا أَسْمَعُ: نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَادٍ يُقَالُ لَهُ: وَادِي خُمٍّ، فَأَمَرَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّاهَا بِهَجِيرٍ، قَالَ فَخَطَبَنَا، وَظُلِّلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبٍ عَلَى شَجَرَةِ سَمُرَةٍ مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ:" أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَوَ لَسْتُمْ تَشْهَدُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ہم نے " غدیرخم " کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، کچھ دیر بعد " الصلوٰۃ جامعۃ " کی منادی کردی گئی دو درختوں کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جگہ تیار کردی گئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر پڑھائی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کردو مرتبہ فرمایا کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں اے اللہ، اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى عبيد، ولضعف ميمون أبى عبدالله
ابومنہال رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے بیع صرف کے متعلق پوچھا وہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لو، یہ مجھ سے بہتر اور زیادہ جانتے والے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ان سے پوچھ لویہ مجھ سے بہتر اور زیادہ جاننے والے ہیں بہرحال! ان دونوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے بدلے چاندی کی ادھارخریدوفروخت سے منع کیا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ميمون ابي عبد الله ، قال: كنت عند زيد بن ارقم ، فجاء رجل من اقصى الفسطاط، فساله عن ذا، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الست اولى بالمؤمنين من انفسهم؟ قالوا: بلى، قال: من كنت مولاه، فعلي مولاه، قال ميمون: فحدثني بعض القوم عن زيد: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْفَسْطَاطِ، فَسَأَلَهُ عَنْ ذَا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، قَالَ مَيْمُونٌ: فَحَدَّثَنِي بَعْضُ الْقَوْمِ عَنْ زَيْدٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" .
میمون کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی فسطاط کے آخر سے آیا اور ان سے کسی بیماری کے متعلق پوچھا انہوں نے دوران گفتگو فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیوں نہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں میمون ایک دوسری سند سے یہ اضافہ بھی نقل کرتے ہیں کہ، اے اللہ! جو علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ميمون أبى عبدالله
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن اجلح ، عن الشعبي ، عن عبد خير الحضرمي ، عن زيد بن ارقم ، قال: كان علي رضي الله عنه باليمن، فاتي بامراة وطئها ثلاثة نفر في طهر واحد، فسال اثنين: اتقران لهذا بالولد؟ فلم يقرا، ثم سال اثنين: اتقران لهذا بالولد؟ فلم يقرا، ثم سال اثنين، حتى فرغ يسال اثنين اثنين عن واحد، فلم يقروا، ثم اقرع بينهم، فالزم الولد الذي خرجت عليه القرعة، وجعل عليه ثلثي الدية، فرفع ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فضحك حتى بدت نواجذه .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَجْلَحَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْيَمَنِ، فَأُتِيَ بِامْرَأَةٍ وَطِئَهَا ثَلَاثَةُ نَفَرٍ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ، فَسَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَلَمْ يُقِرَّا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ: أَتُقِرَّانِ لِهَذَا بِالْوَلَدِ؟ فَلَمْ يُقِرَّا، ثُمَّ سَأَلَ اثْنَيْنِ، حَتَّى فَرَغَ يَسْأَلُ اثْنَيْنِ اثْنَيْنِ عَنْ وَاحِدٍ، فَلَمْ يُقِرُّوا، ثُمَّ أَقْرَعَ بَيْنَهُمْ، فَأَلْزَمَ الْوَلَدَ الَّذِي خَرَجَتْ عَلَيْهِ الْقُرْعَةُ، وَجَعَلَ عَلَيْهِ ثُلُثَيْ الدِّيَةِ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ .
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن میں تھے تو ان کی پاس ایک عورت کو لایا گیا جس سے ایک ہی طہر میں تین آدمیوں نے بدکاری کی تھی انہوں نے ان میں سے دو آدمیوں سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کے لئے بچے کا اقرار کرتے ہو؟ انہوں نے اقرار نہیں کیا اسی طرح ایک ایک کے ساتھ دوسرے کو ملاکرسوال کرتے رہے یہاں تک کہ اس مرحلے سے فارغ ہوگئے اور کسی نے بھی بچے کا اقرار نہیں کیا پھر انہوں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور قرعہ میں جس کا نام نکل آیابچہ اس کا قرار دے دیا اور اس پر دوتہائی دیت مقرر کردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مسکرائے کہ دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطرابه ، فقد رواه الشعبي، واختلف عنه
ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ اور زید رضی اللہ عنہ سے بیع صرف کے متعلق پوچھا تو ان دونوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ہم تجارت کرتے تھے ایک مرتبہ ہم نے بھی ان سے یہی سوال پوچھا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر معاملہ نقد کا ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر ادھارہو تو پھر صحیح نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2180، م: 1589، وهذا إسناد ضعيف الانقطاعه، حسن بن مسلم لم يسمعه من أبى المنهال