حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت سماك بن حرب ، قال: سمعت عبد الله بن عميرة ، وكان قائد الاعشى في الجاهلية يحدث، عن جرير ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ابايعك على الإسلام. قال: فقبض يده، وقال:" والنصح لكل مسلم" ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنه من لا يرحم الناس لم يرحمه الله عز وجل" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ سِمَاكَ بْنَ حَرْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمِيرَةَ ، وَكَانَ قَائِدَ الْأَعْشَى فِي الْجَاهِلِيَّةِ يُحَدِّثُ، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ. قَالَ: فَقَبَضَ يَدَهُ، وَقَالَ:" وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ" ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ مَنْ لَا يَرْحَمْ النَّاسَ لَمْ يَرْحَمْهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبول اسلام کے وقت میں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں اسلام پر بیعت کرتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ کھینچ کر فرمایا ہر مسلمان کی خیرخواہی کرو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحم نہیں کرتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 57، م: 56، وهذا إسناد اختلف فيه على سماك
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحم نہیں کرتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6013، م: 2319، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق السبيعي
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے وہ لوگ چاشت کے وقت نماز پڑھ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔
حكم دارالسلام: هذا من صحيح حديث القاسم بن عوف، م: 748
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن ابي حيان التيمي ، حدثني يزيد بن حيان التيمي ، قال: انطلقت انا، وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم، إلى زيد بن ارقم، فلما جلسنا إليه، قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا، رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه، وصليت معه، لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا ابن اخي، والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت اعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوه، وما لا فلا تكلفونيه، ثم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما خطيبا فينا بماء يدعى خما، بين مكة، والمدينة، فحمد الله تعالى، واثنى عليه، ووعظ، وذكر، ثم قال:" اما بعد، الا يا ايها الناس، إنما انا بشر يوشك ان ياتيني رسول ربي عز وجل، فاجيب، وإني تارك فيكم ثقلين، اولهما: كتاب الله عز وجل، فيه الهدى والنور، فخذوا بكتاب الله تعالى، واستمسكوا به، فحث على كتاب الله، ورغب فيه، قال: واهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي"، فقال له حصين: ومن اهل بيته يا زيد؟ اليس نساؤه من اهل بيته؟ قال: إن نساءه من اهل بيته، ولكن اهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم: آل علي، وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس، قال: اكل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ التَّيْمِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ، إلى زيد بن أرقم، فلما جلسنا إليه، قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ، وَصَلَّيْتَ مَعَهُ، لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، وَاللَّهِ لَقَدْ كَبُرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي، وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا حَدَّثْتُكُمْ فَاقْبَلُوهُ، وَمَا لَا فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطِيبًا فِينَا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا، بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ، وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، أَلَا يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، فَأُجِيبُ، وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ، أَوَّلُهُمَا: كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ، فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، وَرَغَّبَ فِيهِ، قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي"، فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ؟ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: إِنَّ نِسَاءَهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنَّ أَهْلَ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ: آلُ عَلِيٍّ، وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَكُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ .
یزید بن حیان تمیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حصین بن سبرہ اور عمربن مسلم کے ساتھ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جب ہم لوگ بیٹھ چکے تو حصین نے عرض کیا کہ اے زید! آپ کو تو خیر کثیر ملی ہے آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ان کی احادیث سنی ہیں ان کے ساتھ جہاد میں شرکت کی ہے اور ان کی معیت میں نماز پڑھی ہے لہٰذا آپ کو تو خیر کثیر نصیب ہوگئی آپ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہو؟ انہوں نے فرمایا بھتیجے! میں بوڑھا ہوچکا، میرا زمانہ پرانا ہوچکا اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو باتیں محفوظ رکھتا تھا، ان میں سے کچھ بھول بھی چکا، لہٰذا میں اپنے طور پر اگر کوئی حدیث بیان کردیا کروں تو اسے قبول کرلیا کرو ورنہ مجھے اس پر مجبور نہ کیا کرو پھر فرمایا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ایک چشمے کے قریب جسے " خم " کہا جاتا ہے خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثناء بیان کرکے کچھ وعظ و نصیحت کی، پھر، امابعد " کہہ کر فرمایا لوگو! میں بھی ایک انسان ہی ہوں ہوسکتا ہے کہ جلدہی میرے رب کا قاصد مجھے بلانے کے لئے آپہنچے اور میں اس کی پکار پر لبیک کہہ دوں، یاد رکھو! میں تمہارے درمیان دو مضبوط چھوڑ کر جارہاہوں پہلی چیز تو کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت بھی ہے اور نور بھی، لہٰذا کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامو، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی ترغیب دی اور توجہ دلائی اور فرمایا دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں اور تین مرتبہ فرمایا میں اپنے اہل بیت کے حقوق کے متعلق تمہیں اللہ کے نام سے نصیحت کرتا ہوں۔ حصین نے پوچھا کہ اے زید! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے کون مراد ہیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت میں داخل نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں لیکن یہاں مرادوہ لوگ ہیں جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدصدقہ حرام ہو، حصین نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے فرمایا آل عقیل، آل علی، آل جعفر اور آل عباس، حصین نے پوچھا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں!
قال يزيد بن حيان : حدثنا زيد بن ارقم في مجلسه ذلك، قال: بعث إلي عبيد الله بن زياد، فاتيته، فقال: ما احاديث تحدثها وترويها عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لا نجدها في كتاب الله عز وجل? تحدث ان له حوضا في الجنة! قال: قد حدثناه رسول الله صلى الله عليه وسلم ووعدناه، قال: كذبت، ولكنك شيخ قد خرفت، قال: إني قد سمعته اذناي، ووعاه قلبي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من جهنم"، وما كذبت على رسول الله صلى الله عليه وسلم . وحدثنا زيد في مجلسه، قال: " إن الرجل من اهل النار ليعظم للنار، حتى يكون الضرس من اضراسه كاحد" .قَالَ يَزِيدُ بْنُ حَيّان : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ فِي مَجْلِسِهِ ذَلِكَ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ، فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: مَا أَحَادِيثُ تُحَدِّثُهَا وَتَرْوِيهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا نَجِدُهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ? تُحَدِّثُ أَنَّ لَهُ حَوْضًا فِي الْجَنَّةِ! قَالَ: قَدْ حَدَّثَنَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَعَدَنَاهُ، قَالَ: كَذَبْتَ، وَلَكِنَّكَ شَيْخٌ قَدْ خَرِفْتَ، قَالَ: إِنِّي قَدْ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ جَهَنَّمَ"، وَمَا كَذَبْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . وَحَدَّثَنَا زَيْدٌ فِي مَجْلِسِهِ، قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَيَعْظُمُ لِلنَّارِ، حَتَّى يَكُونَ الضِّرْسُ مِنْ أَضْرَاسِهِ كَأُحُدٍ" .
یزید بن حیان کہتے ہیں کہ اسی مجلس میں (جس کا تذکرہ پچھلی حدیث میں ہوا) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ہمیں بتایا کہ ایک مرتبہ مجھے عبیداللہ بن زیادنے پیغام بھیج کر بلایا میں اس کے پاس پہنچا تو وہ کہنے لگا کہ یہ آپ کون سی احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتے رہتے ہیں جو ہمیں کتاب اللہ میں نہیں ملتیں؟ آپ بیان کرتے ہیں کہ جنت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حوض ہوگا؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہم سے فرمائی تھی اور ہم سے اس کا وعدہ کیا تھا وہ کہنے لگا کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں آپ بوڑھے ہوگئے ہیں اس لئے آپ کی عقل کام نہیں کررہی انہوں نے فرمایا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاداپنے کانوں سے سنا ہے اور دل میں محفوظ کیا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی جھوٹی بات کسی نسبت کرتا ہے اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالینا چاہئے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی جھوٹ نہیں باندھا۔ اور اسی مجلس میں حضرت زید رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بھی ہمارے سامنے بیان فرمائی کہ جہنم میں جہنمی آدمی کا جسم بھی بہت پھیل جائے گا حتی کہ اس کی ایک ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گی۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن يزيد بن حيان ، عن زيد بن ارقم ، قال: سحر النبي صلى الله عليه وسلم رجل من اليهود، قال: فاشتكى لذلك اياما، قال: فجاءه جبريل عليه السلام، فقال: إن رجلا من اليهود سحرك، عقد لك عقدا في بئر كذا وكذا، فارسل إليها من يجيء بها، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا رضي الله عنه، فاستخرجها، فجاء بها، فحلها، قال: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم كانما نشط من عقال، فما ذكر لذلك اليهودي، ولا رآه في وجهه قط، حتى مات .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: سَحَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، قَالَ: فَاشْتَكَى لِذَلِكَ أَيَّامًا، قَالَ: فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ سَحَرَكَ، عَقَدَ لَكَ عُقَدًا فِي بِئْرِ كَذَا وَكَذَا، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا مَنْ يَجِيءُ بِهَا، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَاسْتَخْرَجَهَا، فَجَاءَ بِهَا، فَحَلَّهَا، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَمَا ذَكَرَ لِذَلِكَ الْيَهُودِيِّ، وَلَا رَآهُ فِي وَجْهِهِ قَطُّ، حَتَّى مَاتَ .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی یہودی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کردیا جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کئی دن بیمار رہے پھر حضرت جبرائیل آئے اور کہنے لگے کہ ایک یہودی شخص نے آپ پر سحر کردیا ہے اس نے فلاں کنوئیں میں کسی چیز پر کچھ گرہیں لگا رکھی ہیں آپ کسی کو بھیج کر وہ وہاں سے منگوالیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر وہ چیز نکلوالی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے لے کر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھولا جوں جوں وہ گرہیں کھلتی جاتی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تندرست ہوتے جاتے تھے جیسے کسی رسی سے آپ کو کھول دیا گیا ہے ہو لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کا کوئی تذکرہ کیا اور نہ ہی وصال تک اس کا چہرہ دیکھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بغير هذه السياقة، وهذا إسناد ضعيف لتدليس الأعمش
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن طلحة مولى قرظة، عن زيد بن ارقم ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما انتم بجزء من مئة الف جزء ممن يرد علي الحوض يوم القيامة"، قال: فقلنا لزيد: وكم انتم يومئذ؟ قال: فقال: بين الست مئة، إلى السبع مئة .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ طَلْحَةَ مَوْلَى قَرَظَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أَنْتُمْ بِجُزْءٍ مِنْ مِئَةِ أَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ: فَقُلْنَا لِزَيْدٍ: وَكَمْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: فَقَالَ: بَيْنَ السِّتِّ مِئَةِ، إِلَى السَّبْعِ مِئَةِ .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن میرے پاس حوض کوثر پر آنے والوں کا لاکھواں حصہ بھی نہیں ہو ہم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اس وقت آپ لوگ کتنے تھے؟ انہوں نے فرمایا چھ سے سات سو کے درمیان۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، طلحة مولي قرظة مجهول. وقول الحافظ ابن حجر: "وثقة النسائي" وهم
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ثمامة بن عقبة ، عن زيد بن ارقم ، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل من اليهود، فقال: يا ابا القاسم، الست تزعم ان اهل الجنة ياكلون فيها ويشربون؟ وقال لاصحابه: إن اقر لي بهذه خصمته، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بلى، والذي نفسي بيده، إن احدهم ليعطى قوة مئة رجل في المطعم، والمشرب، والشهوة، والجماع، قال: فقال له اليهودي: فإن الذي ياكل ويشرب تكون له الحاجة، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حاجة احدهم عرق يفيض من جلودهم مثل ريح المسك، فإذا البطن قد ضمر" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، أَلَسْتَ تَزْعُمُ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَأْكُلُونِ فِيهَا وَيَشْرَبُونَ؟ وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: إِنْ أَقَرَّ لِي بِهَذِهِ خَصَمْتُهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلَى، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ أَحَدَهُمْ لَيُعْطَى قُوَّةَ مِئَةِ رَجُلٍ فِي الْمَطْعَمِ، وَالْمَشْرَبِ، وَالشَّهْوَةِ، وَالْجِمَاعِ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ الْيَهُودِيُّ: فَإِنَّ الَّذِي يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ تَكُونُ لَهُ الْحَاجَةُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَاجَةُ أَحَدِهِمْ عَرَقٌ يَفِيضُ مِنْ جُلُودِهِمْ مِثْلُ رِيحِ الْمِسْكِ، فَإِذَا الْبَطْنُ قَدْ ضَمُرَ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے ابوالقاسم! کیا آپ کا یہ خیال نہیں ہے کہ جنتی جنت میں کھائیں پئیں گے؟ اس نے اپنے دوستوں سے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اقرار کرلیا تو میں ان پر غالب آکر دکھاؤں گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے کیوں نہیں ہر جنتی کو کھانے، پینے، خواہشات اور مباشرت کے حوالے سے سو آدمیوں کے برابرطاقت عطاء کی جائے گی، اس یہودی نے کہا کہ پھر اس کھانے پینے والے کو قضاء حاجت کا مسئلہ بھی پیش آئے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قضاء حاجت کا طریقہ یہ ہوگا کہ انہیں پسینہ آئے گا جوان کی کھال سے بہے گا اور اس سے مشک کی مہک آئے گی اور پیٹ ہلکا ہوجائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، لأن الأعمش مدلس، وقد عنعن
حدثنا إسماعيل بن علية ، اخبرنا ايوب ، عن القاسم الشيباني ، ان زيد بن ارقم راى قوما يصلون في مسجد قباء من الضحى، فقال: اما لقد علموا ان الصلاة في غير هذه الساعة افضل، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن صلاة الاوابين حين ترمض الفصال، وقال مرة: واناس يصلون" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَأَى قَوْمًا يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ قُبَاءَ مِنَ الضُّحَى، فَقَالَ: أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّ الصَّلَاةَ فِي غَيْرِ هَذِهِ السَّاعَةِ أَفْضَلُ، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ صَلَاةَ الْأَوَّابِينَ حِينَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ، وَقَالَ مَرَّةً: وَأُنَاسٌ يُصَلُّونَ" .
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اہل قباء کے پاس تشریف لے گئے وہ لوگ چاشت کے وقت نماز پڑھ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی یہ نماز اس وقت پڑھی جاتی ہے جب اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔
حكم دارالسلام: هذا من صحيح حديث القاسم بن عوف، م: 748