حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا إسماعيل ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم، فطاف بالبيت وطفنا معه، وصلى خلف المقام، وصلينا معه، ثم خرج فطاف بين الصفا، والمروة ونحن معه نستره من اهل مكة، لا يرميه احد او يصيبه احد بشيء، قال: فدعا على الاحزاب، فقال: " اللهم منزل الكتاب، سريع الحساب، هازم الاحزاب، اللهم اهزمهم وزلزلهم" قال: ورايت بيده ضربة على ساعده، فقلت: ما هذه؟ قال: ضربتها يوم حنين، فقلت له: اشهدت معه حنينا؟ قال: نعم، وقبل ذلك .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَطُفْنَا مَعَهُ، وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، ثُمَّ خَرَجَ فَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَنَحْنُ مَعَهُ نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، لَا يَرْمِيهِ أَحَدٌ أَوْ يُصِيبُهُ أَحَدٌ بِشَيْءٍ، قَالَ: فَدَعَا عَلَى الْأَحْزَابِ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ، هَازِمَ الْأَحْزَابِ، اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ" قَالَ: وَرَأَيْتُ بِيَدِهِ ضَرْبَةً عَلَى سَاعِدِهِ، فَقُلْتُ: مَا هَذِهِ؟ قَالَ: ضُرِبْتُهَا يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَشَهِدْتَ مَعَهُ حُنَيْنًا؟ قَالَ: نَعَمْ، وَقَبْلَ ذَلِكَ .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے بیت اللہ کا طواف کیا مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی اور صفا مروہ کی سعی کی اور اس دوران مشرکین کی ایذاء رسانی سے بچانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حفاظت میں رکھا۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احزاب کے موقع پر مشرکین کے لشکروں کے لئے بدعاء کرتے ہوئے فرمایا اے کتاب کو نازل کرنے والے اللہ! جلدی حساب لینے والے لشکروں کو شکست دینے والے، انہیں شکست سے ہمکنار فرما اور انہیں ہلا کر رکھ دے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کے بازوپر ایک ضرب کا نشان دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ مجھے غزوہ حنین کے موقع پر لگ گیا تھا میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ غزوہ حنین میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! بلکہ پہلے کے غزوات میں بھی شریک ہوا ہوں۔
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اے اللہ! تمام تعریفیں آپ ہی کی ہیں جو کثرت کے ساتھ ہوں، عمدہ اور بابرکت ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، زياد بن فياض لم يذكر له رواية عن الصحابة
حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، وكان من اصحاب الشجرة، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتاه قوم بصدقة، قال: " اللهم صل عليهم"، فاتاه ابي بصدقته، فقال:" اللهم صل على آل ابي اوفى" .حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَةٍ، قَالَ: " اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِمْ"، فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقتَه، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے مال کی زکوٰۃ لے کر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے دعاء فرماتے تھے ایک دن میں بھی اپنے والد کے مال کی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللھم صل علی آل ابی اوفی۔
حدثنا هشام بن عبد الملك ، حدثنا عبيد الله بن إياد بن لقيط ، حدثنا إياد ، عن عبد الله بن سعيد ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: جاء رجل ونحن في الصف خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخل في الصف، فقال: الله اكبر كبيرا، وسبحان الله بكرة واصيلا، قال: فرفع المسلمون رؤوسهم، واستنكروا الرجل، وقالوا: من الذي يرفع صوته فوق صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من هذا العالي الصوت؟" فقيل: هوذا يا رسول الله، فقال: " والله لقد رايت كلامك يصعد في السماء حتى فتح باب، فدخل فيه" ..حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ ، حَدَّثَنَا إِيَادٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ وَنَحْنُ فِي الصَّفِّ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ فِي الصَّفِّ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا، قَالَ: فَرَفَعَ الْمُسْلِمُونَ رُؤوسَهُمْ، وَاسْتَنْكَرُوا الرَّجُلَ، وَقَالُوا: مَنْ الَّذِي يَرْفَعُ صَوْتَهُ فَوْقَ صَوْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ هَذَا الْعَالِي الصَّوْتَ؟" فَقِيلَ: هُوَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ كَلَامَكَ يَصْعَدُ فِي السَّمَاءِ حَتَّى فُتِحَ بَابٌ، فَدَخَلَ فِيهِ" ..
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک ' آدمی آکر صف میں شامل ہوگیا اور کہنے لگا " اللہ اکبر کبیرا، و سبحان اللہ بکرۃ واصیلا " اس پر مسلمان سر اٹھانے اور اس شخص کو ناپسند کرنے لگے اور دل میں سوچنے لگے کہ یہ کون آدمی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کررہا ہے؟ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ بلند آواز والا کون ہے؟ بتایا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں نے دیکھا کہ تمہارا کلام آسمان پر چڑھ گیا یہاں تک کہ ایک دروازہ کھل گیا اور وہ اس میں داخل ہوگیا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبد الله بن سعيد
طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت فرمائی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، میں نے کہا تو پھر انہوں نے مسلمانوں کو وصیت کا حکم کیسے دے دیا جبکہ خود وصیت کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی ہے (لیکن کسی کو کوئی خاص وصیت نہیں فرمائی ')
حدثنا ابو احمد ، حدثنا مسعر ، عن عبيد بن حسن ، عن ابن ابي اوفى ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اللهم ربنا لك الحمد ملء السماء وملء الارض، وملء ما شئت من شيء بعد" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حَسَنٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاء وَمِلْءَ الْأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اے اللہ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں زمین و آسمان کے بھرپور ہونے کے برابر اور اس کے علاوہ جن چیزوں کو آپ چاہیں ان کے بھرپور ہونے کے برابر۔
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا مسعر ، عن إبراهيم السكسكي ، عن ابن ابي اوفى ، قال: اتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني لا استطيع ان آخذ من القرآن شيئا، فعلمني شيئا يجزئني من القرآن، قال: " سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله اكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله"، قال: فذهب او قام او نحو ذا، قال: هذا لله عز وجل، فما لي؟ قال:" قل اللهم اغفر لي، وارحمني، وعافني، واهدني وارزقني او ارزقني واهدني وعافني" . قال مسعر: وربما قال: استفهمت بعضه من ابي خالد يعني الدالاني.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ آخُذَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا، فَعَلِّمْنِي شَيْئًا يُجْزِئُنِي مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ"، قَالَ: فَذَهَبَ أَوْ قَامَ أَوْ نَحْوَ ذَا، قَالَ: هَذَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَمَا لِي؟ قَالَ:" قُلْ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَعَافِنِي، وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي أَوْ ارْزُقْنِي وَاهْدِنِي وَعَافِنِي" . قَالَ مِسْعَرٌ: وَرُبَّمَا قَالَ: اسْتَفْهَمْتُ بَعْضَهُ مِنْ أَبِي خَالِدٍ يَعْنِي الدَّالَانِيَّ.
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں قرآن کریم کا تھوڑا ساحصہ بھی یاد نہیں کرسکتا، اس لئے مجھے کوئی ایسی چیز سکھا دیجئے جو میرے لئے کافی ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولاقوۃ الاباللہ اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے میرے لئے کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہہ لیا کرو اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھ پر رحم فرما، مجھے عافیت عطاء فرما، مجھے ہدایت عطاء فرما اور مجھے رزق عطاء۔
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابراهيم السكسكي
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اے اللہ تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں زمین و آسمان کے بھرپور ہونے کے برابر اور اس کے علاوہ جن چیزوں کو آپ چاہیں ان کے بھرپور ہونے کے برابر۔
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شعبة ، عن إبراهيم الهجري ، عن عبد الله بن ابي اوفى وكان من اصحاب الشجرة، فماتت ابنة له، وكان يتبع جنازتها على بغلة خلفها، فجعل النساء يبكين، فقال:" لا ترثين، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المراثي، فتفيض إحداكن من عبرتها ما شاءت، ثم كبر عليها اربعا، ثم قام بعد الرابعة قدر ما بين التكبيرتين يدعو، ثم قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع في الجنازة هكذا" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْهَجَرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ، فَمَاتَتْ ابْنَةٌ لَهُ، وَكَانَ يَتْبَعُ جِنَازَتَهَا عَلَى بَغْلَةٍ خَلْفَهَا، فَجَعَلَ النِّسَاءُ يَبْكِينَ، فَقَالَ:" لَا تَرْثِينَ، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمَرَاثِي، فَتُفِيضُ إِحْدَاكُنَّ مِنْ عَبْرَتِهَا مَا شَاءَتْ، ثُمَّ كَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا، ثُمَّ قَامَ بَعْدَ الرَّابِعَةِ قَدْرَ مَا بَيْنَ التَّكْبِيرَتَيْنِ يَدْعُو، ثُمَّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي الْجِنَازَةِ هَكَذَا" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ شرکاء بیعت رضوان میں سے تھے ان کی ایک بیٹی فوت ہوگئی وہ ایک خچر پر سوار ہو کر اس کے جنازے کے پیچھے چل رہے تھے کہ عورتیں رونے لگیں انہوں نے خواتین سے فرمایا کہ تم لوگ مرثیہ نہ پڑھو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے البتہ تم میں سے جو عورت جتنے آنسو بہانا چاہتی ہے سو بہالے پھر انہوں نے اس کے جنازے پر چار تکبیرات کہیں اور چوتھی تکبیر کے بعد اتنی دیرکھڑے ہو کر دعاء کرتے رہے جتنا وقفہ دو تکبیروں کے درمیان تھا، پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنازے میں اسی طرح فرماتے تھے۔