حدثنا حجاج ، حدثني شعبة ، عن ابي المختار من بني اسد، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، قال: كنا في سفر فلم نجد الماء، قال: ثم هجمنا على الماء بعد، قال: فجعلوا يسقون رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكلما اتوه بالشراب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ساقي القوم آخرهم" ثلاث مرات حتى شربوا كلهم .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي الْمُخْتَارِ مَنْ بَنِي أَسَدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ فَلَمْ نَجِدْ الْمَاءَ، قَالَ: ثُمَّ هَجَمْنَا عَلَى الْمَاءِ بَعْدُ، قَالَ: فَجَعَلُوا يَسْقُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُلَّمَا أَتَوْهُ بِالشَّرَابِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَاقِي الْقَوْمِ آخِرُهُمْ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ حَتَّى شَرِبُوا كُلُّهُمْ .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی سفر میں تھے ہمیں پانی نہیں مل رہا تھا تھوڑی دیر بعد ایک جگہ پانی نظر آگیا لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی لے کر آنے لگے جب بھی کوئی آدمی پانی لے کر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے کسی بھی قوم کا ساقی سب سے آخر میں پیتا ہے یہاں تک کہ سب لوگوں نے پانی پی لیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو المختار الأسدي مجهول
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . وحجاج ، حدثني شعبة ، قال: سمعت عبد الله بن ابي المجالد ، قال: اختلف عبد الله بن شداد، وابو بردة في السلف، فبعثاني إلى عبد الله بن ابي اوفى ، فسالته، فقال: " كنا نسلف في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهم في الحنطة والشعير والزبيب او التمر شك في التمر والزبيب وما هو عندهم، او ما نراه عندهم، ثم اتيت عبد الرحمن بن ابزى، فقال مثل ذلك" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَحَجَّاجٌ ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي الْمُجَالِدِ ، قَالَ: اخْتَلَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ، وَأَبُو بُرْدَةَ فِي السَّلَفِ، فَبَعَثَانِي إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " كُنَّا نُسْلِفُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُم فِي الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ أَوْ التَّمْرِ شَكَّ فِي التَّمْرِ وَالزَّبِيبِ وَمَا هُوَ عِنْدَهُمْ، أَوْ مَا نَرَاهُ عِنْدَهُمْ، ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبْزَى، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ" .
عبداللہ بن ابی المجاہد کہتے ہیں کہ ادھاربیع کے مسئلے میں حضرت عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ اور ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اختلاف رائے ہوگیا ان دونوں نے مجھے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا میں نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شخین رضی اللہ عنہ کے دور میں گندم، جو، کشمش یا جو چیزیں بھی لوگوں کے پاس ہوتی تھیں، ان سے ادھار بیع کرلیا کرتے تھے، پھر میں حضرت عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی یہی بات فرمائی۔
طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت فرمائی ہے؟ انہوں نے فرمایا نہیں، میں نے کہا تو پھر انہوں نے مسلمانوں کو وصیت کا حکم کیسے دے دیا جبکہ خود وصیت کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت فرمائی ہے (لیکن کسی کو کوئی خاص وصیت نہیں فرمائی ')
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2740، م: 1634، وهذا إسناد ظاهرة الانقطاع، حجاج لم يصرح بسماعه من مالك بن مغول، وقد توبع
حدثنا هشيم ، اخبرنا الشيباني ، عن محمد بن ابي المجالد ، قال: بعثني اهل المسجد إلى ابن ابي اوفى " اساله ما صنع النبي صلى الله عليه وسلم في طعام خيبر، فاتيته فسالته عن ذلك، قال: وقلت: هل خمسه؟ قال: لا , كان اقل من ذلك، قال: وكان احدنا إذا اراد منه شيئا اخذ منه حاجته" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ ، قَالَ: بَعَثَنِي أَهْلُ الْمَسْجِدِ إِلَى ابْنِ أَبِي أَوْفَى " أَسْأَلُهُ مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَعَامِ خَيْبَرَ، فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: وَقُلْتُ: هَلْ خَمَّسَهُ؟ قَالَ: لَا , كَانَ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: وَكَانَ أَحَدُنَا إِذَا أَرَادَ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْهُ حَاجَتَهُ" .
محمد بن ابی مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے مسجد والوں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے غلے کا کیا کیا تھا؟ چناچہ میں نے ان کے پاس پہنچ کر یہ سوال کیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خمس نکالا تھا؟ انہوں نے فرمایا نہیں، وہ اس مقدار سے بہت کم تھا اور ہم میں سے جو شخص چاہتا اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیتا تھا۔
اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے موقع پر بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے؟ انہوں نے فرمایا نہیں۔
حدثنا هشيم ، قال: الشيباني اخبرني، قال: قلت لابن ابي اوفى : " رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، يهوديا ويهودية، قال: قلت: بعد نزول النور او قبلها؟ قال: لا ادري" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ: الشَّيْبَانِيُّ أَخْبَرَنِي، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَى : " رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً، قَالَ: قُلْتُ: بَعْدَ نُزُولِ النُّورِ أَوْ قَبْلَهَا؟ قَالَ: لَا أَدْرِي" .
شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو رجم کی سزادی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ایک یہودی اور یہودیہ کو دی تھی، میں نے پوچھا سورت نور نازل ہونے کے بعد یا اس سے پہلے؟ انہوں نے فرمایا یہ مجھے یاد نہیں۔
حدثنا ابن نمير ، ويعلى ، المعنى، قالا: حدثنا إسماعيل ، قال: قلت لعبد الله بن ابي اوفى اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بشر خديجة رضي الله تعالى عنها؟ قال: نعم، " بشرها ببيت في الجنة من قصب، لا صخب فيه ولا نصب" . قال يعلى: وقد قال مرة: لا صخب او لا لغو فيه ولا نصب.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَيَعْلَى ، الْمَعْنَى، قَالَا: حدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَّرَ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، " بَشَّرَهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ، لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ" . قَالَ يَعْلَى: وقد قَالَ مَرَّةً: لَا صَخَبَ أَوْ لَا لَغْوَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ.
اسماعیل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو خوشخبری دی تھی؟ انہوں نے فرمایا ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنت میں لکڑی کے ایک محل کی خوشخبری دی تھی جس میں کوئی شور و شغب ہوگا اور نہ ہی کوئی تعب۔
حدثنا يعلى ، حدثنا إسماعيل ، قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى ، يقول:" كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين اعتمر، فطاف وطفنا معه، وصلى وصلينا معه، وسعى بين الصفا، والمروة، وكنا نستره من اهل مكة لا يصيبه احد بشيء" .حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى ، يَقُولُ:" كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اعْتَمَرَ، فَطَافَ وَطُفْنَا مَعَهُ، وَصَلَّى وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَكُنَّا نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ لَا يُصِيبُهُ أَحَدٌ بِشَيْءٍ" .
حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کی سعی کی اور اس دوران مشرکین کی ایذاء رسانی سے بچانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حفاظت میں رکھا۔