حدثنا وكيع ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن البراء ، قال: " ما رايت من ذي لمة احسن في حلة حمراء من رسول الله صلى الله عليه وسلم، له شعر يضرب منكبيه، بعيد ما بين المنكبين، ليس بالطويل ولا بالقصير" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَن سُفْيَانَ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَاءِ ، قَالَ: " مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَهُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ" .
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ جوڑا زیب تن فرما رکھا تھا میں نے اس جوڑے میں ساری مخلوق میں ان سے زیادہ حسین کوئی نہیں دیکھا، صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے بال کندھوں تک آتے تھے۔
حدثنا وكيع ، وابن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سليمان بن عبد الرحمن ، عن عبيد بن فيروز مولى بني شيبان في حديثه، قال: سالت البراء بن عازب : ما كره رسول الله صلى الله عليه وسلم من الاضاحي، او ما نهى عنه من الاضاحي؟ فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ويده اطول من يدي او قال: يدي اقصر من يده، قال: " اربع لا تجوز في الضحايا: العوراء البين عورها، والمريضة البين مرضها، والعرجاء البين عرجها، والكسير التي لا تنقي" . فقلت للبراء: فإنا نكره ان يكون في الاذن نقص، او في العين نقص، او في السن نقص؟ قال: فما كرهته فدعه، ولا تحرمه على احد.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، قَالاَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَن عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ مَوْلَى بَنِي شَيْبَانَ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ : مَا كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَضَاحِيِّ، أَوْ مَا نَهَى عَنْه مِنَ الْأَضَاحِيِّ؟ فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَيَدُهُ أَطْوَلُ مِنْ يَدِي أَوْ قَالَ: يَدِي أَقْصَرُ مِنْ يَدِهِ، قَالَ: " أَرْبَعٌ لَا تَجُوزُ فِي الضَّحَايَا: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ عَرَجُهَا، وَالْكَسِيرُ الَّتِي لَا تُنْقِي" . فَقُلْتُ لِلْبَرَاءِ: فَإِنَّا نَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ فِي الْأُذُنِ نَقْصٌ، أَوْ فِي الْعَيْنِ نَقْصٌ، أَوْ فِي السِّنِّ نَقْصٌ؟ قَالَ: فَمَا كَرِهْتَهُ فَدَعْهُ، وَلَا تُحَرِّمْهُ عَلَى أَحَدٍ.
عبید بن فیروز رحمہ اللہ نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قسم کے جانور کی قربانی سے منع کیا ہے اور کسے مکروہ سمجھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار جانور قربانی میں کافی نہیں ہوسکتے وہ کانا جانور جس کا کانا ہونا واضح ہو وہ بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو وہ لنگڑا جانور جس کی لنگراہٹ واضح ہو اور وہ جانور جس کی ہڈی ٹوٹ کر اس کا گودا نکل گیا ہو عبید نے کہا کہ میں اس جانور کو مکروہ سمجھتا ہوں جس کے سینگ کان یا دانت میں کوئی نقص ہو، انہوں نے فرمایا کہ تم جسے مکروہ سمجھتے ہو اسے چھوڑ دو لیکن کسی دوسرے پر اسے حرام قرار نہ دو۔
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن البراء ، قال: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بثوب حرير، فجعل اصحابه يتعجبون من لينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لمناديل سعد بن معاذ في الجنة الين من هذا" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَاءِ ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبٍ حَرِيرٍ، فَجَعَلَ أَصْحَابُهُ يَتَعَجَّبُونَ مِنْ لِينِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ أَلْيَنُ مِنْ هَذَا" .
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ریشمی کپڑا پیش کیا گیا لوگ اس کی خوبصورتی اور نرمی پر تعجب کرنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے کہیں زیادہ نرم۔
حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن البراء بن عازب ، قال: مر بنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم خيبر وقد طبخنا القدور، فقال:" ما هذه؟" قلنا: حمرا اصبناها. قال:" وحشية ام اهلية". قلنا: اهلية. قال:" اكفئوها" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَن إِسْرَائِيلَ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: مَرَّ بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ وَقَدْ طَبَخْنَا الْقُدُورَ، فَقَالَ:" مَا هَذِهِ؟" قُلْنَا: حُمُرًا أَصَبْنَاهَا. قَالَ:" وَحْشِيَّةٌ أَمْ أَهْلِيَّةٌ". قُلْنَا: أَهْلِيَّةٌ. قَالَ:" أَكْفِئُوهَا" .
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گذرے اس وقت ہم کھانا پکار ہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ان ہانڈیوں میں کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ گدھے ہیں جو ہمارے ہاتھ لگے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا جنگلی یا پالتو؟ ہم نے عرض کیا پالتو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہانڈیاں الٹادو۔
حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن البراء ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم بالحديبية، والحديبية بئر، قال: ونحن اربع عشرة مائة، قال: فإذا في الماء قلة قال: " فنزع دلوا، ثم مضمض، ثم مج ودعا، قال: فروينا واروينا" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَاءِ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ، قَالَ: وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، قَالَ: فَإِذَا فِي الْمَاءِ قِلَّةٌ قَالَ: " فَنَزَعَ دَلْوًا، ثُمَّ مَضْمَضَ، ثُمَّ مَجَّ وَدَعَا، قَالَ: فَرَوِينَا وَأَرْوَيْنَا" .
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ حدیبیہ پہنچے جو ایک کنواں تھا اور اس کا پانی بہت کم ہوچکا تھا، ہم چودہ سو افراد تھے اس میں سے ایک ڈول نکالا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے پانی لے کر کلی کی اور کلی کا پانی کنوئیں میں ہی ڈال دیا اور دعاء فرمادی اور ہم اس پانی سے خوب سیراب ہوگئے۔
حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن عبد الله بن يزيد ، عن البراء ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا اوى إلى فراشه، وضع يده اليمنى تحت خده، وقال: " اللهم قني عذابك يوم تبعث عبادك" او" تجمع عبادك" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَن إِسْرَائِيلَ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَن الْبَرَاءِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى تَحْتَ خَدِّهِ، وَقَال: " اللَّهُمَّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ" أَوْ" تَجْمَعُ عِبَادَكَ" .
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ فرماتے تو دائیں ہاتھ کا تکیہ بناتے اور یہ دعاء پڑھتے اے اللہ! جس دن تو اپنے بندوں کو جمع فرمائے گا مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق السبيعي
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا فضيل يعني ابن مرزوق ، عن شقيق بن عقبة ، عن البراء بن عازب ، قال: " نزلت:" حافظوا على الصلوات وصلاة العصر"، فقراناها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله ان نقراها، لم ينسخها الله، فانزل: حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى سورة البقرة آية 238" . فقال له رجل كان مع شقيق يقال له: ازهر: وهي صلاة العصر؟ قال: قد اخبرتك كيف نزلت، وكيف نسخها الله تعالى، والله اعلم.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلٌ يَعْنِي ابْنَ مَرْزُوقٍ ، عَن شَقِيقِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: " نَزَلَتْ:" حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ"، فَقَرَأْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ نَقْرَأَهَا، لَمْ يَنْسَخْهَا اللَّهُ، فَأَنْزَلَ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى سورة البقرة آية 238" . فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ كَانَ مَعَ شَقِيقٍ يُقَالُ لَهُ: أَزْهَرُ: وَهِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ؟ قَالَ: قَدْ أَخْبَرْتُكَ كَيْفَ نَزَلَتْ، وَكَيْفَ نَسَخَهَا اللَّهُ تَعَالَى، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابتداء ًیہ آیت نازل ہوئی کہ " نمازوں کی پابندی کروخاص طور پر نماز عصر کی اور ہم اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں اس وقت تک پڑھتے رہے جب تک اللہ کو منظور ہوا اور اللہ نے اسے منسوخ نہ کیا بعد میں نماز عصر کے بجائے " درمیانی نماز " کا لفظ نازل ہوگیا ایک آدمی نے حضرت براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا اس کا مطلب یہ ہے کہ درمیانی نماز سے مراد نماز عصر ہے؟ انہوں نے فرمایا میں نے تمہیں بتادیا کہ وہ کس طرح نازل ہوئی اور کیسے منسوخ ہوئی اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو افتتاح نماز کے موقع پر رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انگوٹھے کانوں کی لوتک برابر ہوتے تھے۔
حدثنا عثمان بن عمر ، قال: حدثنا مالك يعني ابن انس ، عن عمرو بن الحارث ، عن عبيد بن فيروز ، عن البراء بن عازب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل ماذا يتقى من الضحايا؟ فقال:" اربع" وقال البراء: ويدي اقصر من يد رسول الله صلى الله عليه وسلم: " العرجاء البين ظلعها، والعوراء البين عورها، والمريضة البين مرضها، والعجفاء التي لا تنقي" .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ أَنَسٍ ، عَن عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَن عُبَيْدِ بْنِ فَيْرُوزَ ، عَن الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ مَاذَا يُتَّقَى مِنَ الضَّحَايَا؟ فَقَالَ:" أَرْبَعٌ" وَقَالَ الْبَرَاءُ: وَيَدِي أَقْصَرُ مِنْ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي" .
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قربانی میں کس جانور سے بچاجائے؟ میرا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے چھوٹا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چار جانور قربانی میں کافی نہیں ہوسکتے وہ کانا جانور جس کا کانا ہونا واضح ہو وہ بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو وہ لنگڑا جانور کی لنگراہٹ واضح ہو اور وہ جانور جس کی ہڈی ٹوٹ کر اس کا گودا نکل گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، فقد أسقط منه مالك سليمان بن عبدالرحمن الراوي عن عبيد بن فيروز