حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن اپنے چچاحارث بن عمرو سے میری ملاقات ہوئی ان کے پاس ایک جھنڈا تھا میں نے ان سے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اپنے باپ کی بیوی (سوتیلی ماں) سے شادی کرلی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اس کی گردن اڑا ادوں۔
یونس بن عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے (میرے آقا) محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا کیسا تھا؟ انہوں نے فرمایا سیاہ رنگ کا چوکور جھنڈا تھا جو چیتے کی کھال سے بنا ہوا تھا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى يعقوب، ويونس بن عبيد مجهول
حدثنا يزيد ، قال: اخبرنا زكريا ، عن ابي إسحاق ، عن البراء بن عازب ، قال: " اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان يحج، واعتمر قبل ان يحج، واعتمر قبل ان يحج، فقالت عائشة:" لقد علم انه اعتمر اربع عمر بعمرته التي حج فيها" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: " اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يَحُجَّ، وَاعْتَمَرَ قَبْلَ أَنْ يَحُجَّ، وَاعْتَمَرَ قَبْلَ أَنْ يَحُجَّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ:" لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهُ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ بِعُمْرَتِهِ الَّتِي حَجَّ فِيهَا" .
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے پہلے عمرہ کیا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ براء جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ عمرہ فرمایا تھا جن میں حج والا عمرہ بھی شامل تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، زكريا سمع من أبى إسحاق السبيعي بعد الاختلاط
حدثنا يزيد ، اخبرنا داود . ح وابن ابي عدي ، عن داود المعنى، عن عامر ، عن البراء بن عازب ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابن ابي عدي: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " لا يذبحن احد قبل ان نصلي"، فقام إليه خالي، فقال: يا رسول الله، هذا يوم، اللحم فيه كثير قال ابن ابي عدي: مكروه، وإني ذبحت نسكي قبل لياكل اهلي وجيراني، وعندي عناق لبن خير من شاتي لحم، فاذبحها؟ قال:" نعم ولا تجزئ جذعة عن احد بعدك، وهي خير نسيكتيك" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ . ح وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَن دَاوُدَ الْمَعْنَى، عَن عَامِرٍ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " لَا يَذْبَحَنَّ أَحَدٌ قَبْلَ أَنْ نُصَلِّيَ"، فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا يَوْمٌ، اللَّحْمُ فِيهِ كَثِيرٌ قَالَ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ: مَكْرُوهٌ، وَإِنِّي ذَبَحْتُ نُسُكِي قَبْلُ لِيَأْكُلَ أَهْلِي وَجِيرَانِي، وَعِنْدِي عَنَاقُ لَبَنٍ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ، فَأَذْبَحُهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ، وَهِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ" .
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (بقر عید کے دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج کے دن کا آغاز ہم نماز پڑھ کر کریں گے پھر واپس گھر پہنچ کر قربانی کریں گے جو شخص اسی طرح کرے تو وہ ہمارے طریقے تک پہنچ گیا اور جو نماز عید سے پہلے قربانی کرے تو وہ محض گوشت ہے جو اس نے اپنے اہل خانہ کو پہلے دے دیا، اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں میرے ماموں حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے ہی اپنا جانور ذبح کرلیا تھا وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! میں نے تو اپنا جانور پہلے ہی ذبح کرلیا البتہ اب میرے پاس چھ ماہ کا ایک بچہ ہے جو سال بھر کے جانور سے بھی بہتر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو اس کی جگہ ذبح کرلو لیکن تمہارے علاوہ کسی کو اس کی اجازت نہیں۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن البراء ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان ينام، وضع خده على يده اليمنى، وقال: " رب قني عذابك يوم تبعث عبادك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَاءِ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ، وَضَعَ خَدَّهُ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى، وَقَالَ: " رَبِّ قِنِي عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ" .
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ فرماتے تو دائیں ہاتھ کا تکیہ بناتے اور یہ دعاء پڑھتے اے اللہ! جس دن تو اپنے بندوں کو جمع فرمائے گا مجھے اپنے عذاب سے محفوظ رکھنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على أبى إسحاق
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی سفر سے واپس آتے تو یہ دعاء پڑھتے کہ ہم توبہ کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں اور ہم اپنے رب کے عبادت گذار اور اس کے ثناء خواں ہیں۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے موقع پر مجھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو بچہ قرار دیا تھا اس لئے ہمیں واپس بھیج دیا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3955، شريك سيئ الحفظ ، لكنه توبع
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت اس طرح تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے رکوع کرتے رکوع سے سر اٹھاتے سجدہ کرتے سجدہ سے سر اٹھاتے اور دو سجدوں کے درمیان تمام مواقع پر برابر دورانیہ ہوتا تھا، ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے افضل کیا ہے؟
حدثنا حجين ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن البراء ، قال: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة، فابى اهل مكة ان يدعوه يدخل مكة، حتى قاضاهم على ان يقيم بها ثلاثة ايام، فلما كتبوا الكتاب، كتبوا: هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله. قالوا: لا نقر بهذا. لو نعلم انك رسول الله، ما منعناك شيئا، ولكن انت محمد بن عبد الله، قال:" انا رسول الله، وانا محمد بن عبد الله". قال لعلي:" امح رسول الله". قال: والله لا امحوك ابدا، فاخذ النبي صلى الله عليه وسلم الكتاب، وليس يحسن ان يكتب، فكتب مكان رسول الله: " هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله ان لا يدخل مكة السلاح إلا السيف في القراب، ولا يخرج من اهلها احد إلا من اراد ان يتبعه، ولا يمنع احدا من اصحابه ان يقيم بها". فلما دخلها ومضى الاجل، اتوا عليا، فقالوا: قل لصاحبك فليخرج عنا، فقد مضى الاجل، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ..حَدَّثَنَا حُجَيْنٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَن أَبِي إِسْحَاقَ ، عَن الْبَرَاءِ ، قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدْعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ، حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ، كَتَبُوا: هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ. قَالُوا: لَا نُقِرُّ بِهَذَا. لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، مَا مَنَعْنَاكَ شَيْئًا، وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ". قَالَ لِعَلِيٍّ:" امْحُ رَسُولُ اللَّهِ". قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ، وَلَيْسَ يُحْسِنُ أَنْ يَكْتُبَ، فَكَتَبَ مَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ: " هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنْ لَا يُدْخِلَ مَكَّةَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ، وَلَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا أَحَدٌ إِلَّا مَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَّبِعَهُ، وَلَا يَمْنَعَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَنْ يُقِيمَ بِهَا". فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ، أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ فَلْيَخْرُجْ عَنَّا، فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ..
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ذیقعدہ کے مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمرے کے لئے روانہ ہوئے تو اہل مکہ نے انہیں مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس شرط پر مصالحت کرلی کہ وہ صرف تین دن مکہ مکرمہ میں قیام کریں گے جب لوگ اس مضمون کی دستاویز لکھنے کے لئے بیٹھے انہوں نے اس میں " محمد رسول اللہ " صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ لکھا لیکن مشرکین کہنے لگے کہ آپ یہ لفظ مت لکھیں اس لئے کہ اگر آپ اللہ کے پیغمبر ہوتے تو ہم آپ سے کبھی جنگ نہ کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اس لفظ کو مٹادو حضرت علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں تو اسے نہیں مٹاسکتا، چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے اسے مٹادیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا تھا اور اس کی جگہ لکھ دیا کہ یہ فیصلہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے اہل مکہ سے کیا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں سوائے نیام میں پڑی ہوئی تلوار کے کوئی اسلحہ نہ لائیں گے مکہ مکرمہ سے کسی کو نکال کر نہیں لے جائیں گے الاّ یہ کہ کوئی خود ہی ان کے ساتھ جانا چاہے اور اپنے ساتھیوں میں سے کی کو مکہ مکرمہ میں قیام کرنے سے نہیں روکیں گے " چناچہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعدجب تین دن گذرگئے تو مشرکین مکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اپنے ساتھی سے واپس روانگی کے لئے کہہ دو کیونکہ مدت پوری ہوچکی ہے چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکل آئے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے