حدثنا ابو نعيم ، حدثنا يونس ، عن ابي السفر ، عن عامر ، عن جرير ، قال: كنت عند معاوية ، فقال: توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ابن ثلاث وستين، وتوفي ابو بكر رضي الله عنه وهو ابن ثلاث وستين، وتوفي عمر رضي الله عنه وهو ابن ثلاث وستين حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ أَبِي السَّفَرِ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ ، فَقَالَ: تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَتُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ، وَتُوُفِّيَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ وَسِتِّينَ
جریر کہتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال تھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2352، وهذا إسناد اضطرب فيه يونس، وقد خالف شعبة
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے اس شخص کے حق میں ”عمریٰ“ جائز ہوتا ہے جس کے لیے وہ کیا گیا ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال اپنے پاس موجود قینچی سے کاٹے تھے، میں نے ان سے کہا ہے کہ میں تو اسے آپ پر حجت سمجھتا ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 1730، م: 1246، هشام ضعيف، لكنه توبع
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال اپنے پاس موجود قینچی سے کاٹے تھے، میں نے ان سے کہا: میں تو اسے آپ پہ حجت سمجھتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، خ: 1730، م: 1246، هشام ضعيف، لكنه توبع
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص شراب پیے اسے کوڑے مارے جائیں، اگر دوبارہ پیے تو دوبارہ کوڑے مارو حتیٰ کہ اگر چوتھی مرتبہ پیے تو اسے قتل کر دو۔“
حدثنا محمد بن فضيل ، قال: حدثنا عثمان بن حكيم ، قال: سمعت محمد بن كعب القرظي ، قال: سمعت معاوية ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول إذا انصرف من الصلاة: " اللهم لا مانع لما اعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ كَعْبٍ الْقُرَظِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِذَا انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ: " اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ"
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات کہتے ہوئے سنا ہے کہ جسے آپ دیں، اس سے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک لیں اسے کوئی دے نہیں سکتا اور ذی عزت کو آپ کے سامنے اس کی عزت نفع نہیں پہنچا سکتی۔
جریر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو دوران خطبہ یہ کہتے ہوۓ سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال تھی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ سال تھی، اور میں اب تریسٹھ سال کا ہو گیا ہوں۔
حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، سمع معاوية ، يقول بالمدينة على منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم: اين علماؤكم يا اهل المدينة؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا اليوم يوم عاشوراء، وهو يقول: " من شاء منكم ان يصومه فليصمه" حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، سَمِعَ مُعَاوِيَةَ ، يَقُولُ بِالْمَدِينَةِ عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْيَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، وَهُوَ يَقُولُ: " مَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ"
حمید کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں دوران خطبہ یہ کہتے ہوۓ سنا کہ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں چلے گئے؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، یہ عاشوراء کا دن ہے، اس کا روزہ رکھنا ہم پر فرض نہیں ہے، لہٰذا تم میں سے جو روزہ رکھنا چاہے وہ رکھ لے، اور میں تو روزے سے ہوں، اس پر لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا۔ پھر انہوں نے ہاتھوں میں بالوں کا ایک گچھا لے کر فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی چیزوں سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل پر عذاب اسی وقت آیا تھا جب ان کی عورتوں نے اسی کو اپنا مشغلہ بنا لیا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3468، م: 1129، 2127