حدثنا الحسن الحلواني، قال: حدثنا نعيم بن حماد، قال ابو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سفيان وحدثنا محمد بن يحيى، قال: حدثنا نعيم بن حماد، حدثنا ابو داود الطيالسي، عن شعبة، عن يونس بن عبيد، قال: كان عمرو بن عبيد يكذب في الحديث.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ أَبُو إِسْحَاق إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُفْيَانَ وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ عُبَيْدٍ يَكْذِبُ فِي الْحَدِيثِ.
ابو داود طیالسی نے شعبہ سے، انہوں نے یونس بن عبید سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، (یونس نے) کہا: عمرو بن عبید (معروف معتزلی جو پہلے حضرت حسن بصری کی مجلس میں حاضر رہا کرتا تھا) حدیث (کی روایت) میں جھوٹ بولا کرتا تھا۔
یونس بن عبیدہؒ کہتے ہیں: ”عمرو بن عبید (معتزلی) حدیث میں جھوٹ بولتا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19559)»
حدثني عمرو بن علي ابو حفص، قال: سمعت معاذ بن معاذ، يقول: قلت لعوف بن ابي جميلة: إن عمرو بن عبيد، حدثنا، عن الحسن، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، قال: كذب والله عمرو ولكنه اراد، ان يحوزها إلى قوله الخبيثحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ أَبُو حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاذَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: قُلْتُ لِعَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ: إِنَّ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، قَالَ: كَذَبَ وَاللَّهِ عَمْرٌو وَلَكِنَّهُ أَرَادَ، أَنْ يَحُوزَهَا إِلَى قَوْلِهِ الْخَبِيثِ
معاذ بن معاذ کہتے ہیں: میں نے عوف بن ابی جمیلہ سے کہا: عمرو بن عبید نے حضرت حسن بصری سے (روایت کرتے ہوئے) یہ حدیث سنائی: ”جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا تو وہ ہم میں سے نہیں۔“ انہوں نے کہا: بخدا! عمرو نے (اس حدیث کی روایت حسن بصری کی طرف منسوب کرنے میں) جھوٹ بولا لیکن وہ چاہتا ہے کہ اس (صحیح حدیث) کو اپنی جھوٹی بات سے ملا دے۔
معاذ بن معاذؒ کہتے ہیں: میں نے عوف بن ابی جمیلہؒ سے پوچھا: عمرو بن عبید ہمیں حسن بصریؒ سے یہ حدیث بیان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ عوفؒ نے قسم اٹھا کر کہا: ”عمرو جھوٹا ہے، لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ اس حدیث سے اپنے خبیث نظریہ کو تقویت پہنچائے، اور اس کو ثابت کرے۔“(حَوَزَ کا معنی ہے جمع کرنا، اکٹھا کرنا)-
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19182)»
وحدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، حدثنا حماد بن زيد، قال: كان رجل، قد لزم ايوب وسمع منه، ففقده ايوب، فقالوا: يا ابا بكر، إنه قد لزم عمرو بن عبيد، قال حماد: فبينا انا يوما مع ايوب، وقد بكرنا إلى السوق، فاستقبله الرجل فسلم عليه ايوب، وساله، ثم قال له ايوب: بلغني انك لزمت ذاك الرجل.قال حماد: سماه يعني عمرا؟ قال: نعم يا ابا بكر، إنه يجيئنا باشياء غرائب، قال: يقول له ايوب: إنما نفر او نفرق من تلك الغرائب،وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ، قَدْ لَزِمَ أَيُّوبَ وَسَمِعَ مِنْهُ، فَفَقَدَهُ أَيُّوبُ، فَقَالُوا: يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّهُ قَدْ لَزِمَ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ، قَالَ حَمَّادٌ: فَبَيْنَا أَنَا يَوْمًا مَعَ أَيُّوبَ، وَقَدْ بَكَّرْنَا إِلَى السُّوقِ، فَاسْتَقْبَلَهُ الرَّجُلُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ أَيُّوبُ، وَسَأَلَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ أَيُّوبُ: بَلَغَنِي أَنَّكَ لَزِمْتَ ذَاكَ الرَّجُلَ.قَالَ حَمَّادٌ: سَمَّاهُ يَعْنِي عَمْرًا؟ قَالَ: نَعَمْ يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّهُ يَجِيئُنَا بِأَشْيَاءَ غَرَائِبَ، قَالَ: يَقُولُ لَهُ أَيُّوبُ: إِنَّمَا نَفِرُّ أَوْ نَفْرَقُ مِنْ تِلْكَ الْغَرَائِبِ،
۔ عبید اللہ بن عمر قواریری نے کہا: ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا: ایک آدمی تھا، وہ ایوب (سختیانی کی علمی مجلس میں حاضری) کا التزام کرتا تھا اور اس نے ان سے (حدیث کا) سماع کیا تھا۔ ایوب نے اسے غیر حاضر پا کر اس کے بارے میں پوچھا تو لوگوں نے بتایا: جناب ابو بکر (ایوب کی کنیت)! وہ عمرو بن عبید سے منسلک ہو گیا ہے۔ حماد نے کہا: ایک دن میں ایوب کے ساتھ تھا، ہم صبح سویرے بازار کی طرف گئے تو اس آدمی نے ایوب کا استقبال کیا۔ ایوب نے اسے سلام کہا اور (حال احوال) پوچھا، پھر ایوب کہنے لگے: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم اس آدمی کے ساتھ منسلک ہو گئے ہو۔ حماد نے کہا: انہوں نے اس کا، یعنی عمرو کا نام لیا۔ وہ کہنےلگا: ہاں، جناب ابو بکر! وہ غرائب (ایسی باتیں جنہیں کوئی نہیں جانتا) ہمارے سامنے لاتا ہے۔ کہا: ایوب اس سے کہنے لگے: ہم انہی (عجیب و) غریب باتوں سے بھاگتے ہیں یا ڈرتے ہیں (کہ یہ جھوٹی اور من گھڑت ہوتی ہیں۔)
حماد بن زیدؒ کہتے ہیں: ایک آدمی ہمیشہ ایوبؒ کے ساتھ رہتا اور ان سے حدیث سنتا تھا۔ چنانچہ ایوب ؒ نے اسے گم پایا (تو ساتھیوں سے پوچھا) تو حاضرین ِ مجلس نے کہا: اے ابو بکر! وہ تو عمرو بن عبید کے ساتھ چپک گیا ہے، یعنی اس کا ہم نشیں بن گیا ہے، ہم علم ہوگیا ہے۔ حمادؒ کہتے ہیں: جب کہ ایک دن میں صبح سویرے ایوبؒ کے ساتھ بازار کی طرف جا رہا تھا، تو سامنے سے وہ شخص آ گیا، چنانچہ ایوبؒ نے اسے سلام کہا اور حال احوال پوچھا، پھر ایوبؒ نے اس سے کہا: ”مجھ تک یہ بات پہنچی ہے، تو اس آدمی کا ہم نشین ہو گیا ہے؟“ حمادؒ کہتے ہیں: ایوبؒ نے عمرو کانام لیا، اس نے کہا: ہاں اے ابو بکر! کیونکہ وہ ہمیں عجیب و غریب باتیں سناتا ہے۔ ایوبؒ نے اس سے کہا: ”ان ہی عجائب سے تو ہم بھاگتے، یا ڈرتے ہیں۔“(کیونکہ ان غرائب کو احادیث بتانا جھوٹ ہے، اور اگر یہ آراء یا اقوال ہیں تو بد عت ہیں۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (18446)»
وحدثني حجاج بن الشاعر، حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا ابن زيد يعني حمادا، قال: قيل لايوب: إن عمرو بن عبيد روى، عن الحسن، قال: لا يجلد السكران من النبيذ، فقال: كذب، انا سمعت الحسن، يقول: يجلد السكران من النبيذ،وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ زَيْدٍ يَعْنِي حَمَّادًا، قَالَ: قِيلَ لِأَيُّوبَ: إِنَّ عَمْرَو بْنَ عُبَيْدٍ رَوَى، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: لَا يُجْلَدُ السَّكْرَانُ مِنَ النَّبِيذِ، فَقَالَ: كَذَبَ، أَنَا سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: يُجْلَدُ السَّكْرَانُ مِنَ النَّبِيذِ،
سلیمان بن حرب نے کہا: ہم سے ابن زید، یعنی حماد نے بیان کیا، کہا: ایوب سے عرض کی گئی: عمرو بن عبید نے حضرت حسن بصری سے روایت بیان کی کہے (کہ انہوں نے) کہا: جسے نبیذ (شراب) سے نشہ ہو جائے اسے کوڑے نہ مارے جائں۔ تو انہوں نے (ایوب سختیانی) نے کہا: اس نے جھوٹ بولا، میں نے (خود) حسن سے سنا، وہ کہتےتھے: جسے نبیذ سے نشہ ہو جائے اسے کوڑے مارے جائیں۔
حماد بن زیدؒ کہتے ہیں: ایوبؒ کو بتایا گیا: کہ عمرو بن عبید، حسن بصریؒ سے نقل کرتا ہے ”کہ نبیذ سے نشہ آنے پر نشئی کو حد (کوڑے) نہیں لگائیں گے۔“ تو انھوں نے کہا: اس نے جھوٹ بولا ہے، میں نے خود حضرت حسنؒ کو یہ کہتے سنا ہے: ”نبیذ سے نشہ آنے پر نشئی کو حد لگائی جائے گی۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (18447 و 18501)»
سلام بن ابی مطیع کہتے ہیں.’جناب ایوب سختیانی کو یہ خبر پہنچی کہ میں عمرو (بن عبید) کے ہاں (درس میں) جاتا ہوں تو ایک دن وہ میرے پاس آئے اور کہا .’تم نے غور کیا ایک ایسا آدمی آیا جس کے دین پرتمہیں اعتبار نہ ہو، تم اس کی حدیث پر اعتماد نہ کرو گے!
سلام بن ابنِ مطیعؒ کہتے ہیں: ایوبؒ کو پتہ چلا کہ میں عمرو کے پاس جاتا ہوں، تو ایک دن وہ میری طرف متوجّہ ہو کر کہنے لگے: ”بتاؤ! ایک شخص کے دین پر تمہیں اعتماد نہیں ہے اس پر حدیث کے سلسلے میں کیسے اعتماد کرو گے؟ یعنی: اس کی حدیث پر اعتماد نہیں ہو سکتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18448)»
۔ سفیان نے بیان کیا، کہا: میں نے ابو موسیٰ (اسرائیل بن موسیٰ بصری، نزیل ہند) سے سنا، کہہ رہے تھے: ہمیں عمرو بن عبید نے بدعت کا شکار ہونے سے پہلے حدیث سنائی۔
ابو موسیٰ ؒ کہتے ہیں: ”بدعتی (معتزلی، قدری) ہونے سے پہلے عمرو بن عبید نے ہمیں احادیث سنائیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (19600)»
۔ معاذ عنبری نے کہا: میں نے واسط کے قاضی ابو شیبہ کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے شعبہ کی طرف لکھا تو انہوں نے جواب میں میری طرف لکھ بھیجا، اس سے کوئی چیز روایت نہ کرو اور میرا خط پھاڑ دو۔
معاذ عنبریؒ کہتے ہیں: میں نے قاضی واسط ابو شعبہ کے بارے میں شعبہؒ کو خط لکھ کر پوچھا، انھوں نے مجھے جواب لکھ کر بھیجا: ”اس سے کوئی حدیث نہ لکھو اور میرا خط چاک کردو۔“(تاکہ وہ اس خط کے سبب مجھے نشانہ نہ بنائے۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18806)»
وحدثنا الحلواني، قال: سمعت عفان، قال: حدثت حماد بن سلمة، عن صالح المري بحديث، عن ثابت، فقال: كذب، وحدثت هماما، عن صالح المري بحديث، فقال: كذب،وحَدَّثَنَا الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَفَّانَ، قَالَ: حَدَّثْتُ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ، عَنْ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ بِحَدِيثٍ، عَنْ ثَابِتٍ، فَقَالَ: كَذَبَ، وَحَدَّثْتُ هَمَّامًا، عَنْ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ بِحَدِيثٍ، فَقَالَ: كَذَبَ،
۔ عفان (بن مسلم) نے کہا: میں نے حماد بن سلمہ کو صالح مری کے واسطے سے ایک حدیث سنائی جو اس نے ثابت سے روایت کی تو انہوں نے (حماد) نے کہا: اس نے جھوٹ بولا۔ (اسی طرح) میں نے ہمام کو صالح مری سے ایک حدیث سنائی تو انہوں نے بھی کہا: اس نے جھوٹ بولا۔
عفانؒ کہتے ہیں: میں نے حماد بن سلمہؒ کو صالح مریؒ کی ثابتؒ سے ایک حدیث سنائی، تو انھوں نے کہا: ”وہ جھوٹا ہے۔“ اور میں نے ہمامؒ کو صالح مری کی ایک حدیث سنائی، تو انھوں نے بھی کہا: ”اس نے جھوٹ بولا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18590 و 19514)»
وحدثني محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: قال لي شعبة: ايت جرير بن حازم، فقل له: لا يحل لك ان تروي، عن الحسن بن عمارة، فإنه يكذب، قال ابو داود: قلت لشعبة: وكيف ذاك؟ فقال: حدثنا عن الحكم باشياء لم اجد لها اصلا، قال: قلت له: باي شيء؟ قال: قلت للحكم: اصلى النبي صلى الله عليه وسلم على قتلى احد؟ فقال: لم يصل عليهم، فقال الحسن بن عمارة، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس، إن النبي صلى الله عليه وسلم صلى عليهم، ودفنهم، قلت للحكم: ما تقول في اولاد الزنا؟ قال: يصلى عليهم، قلت: من حديث من يروى؟ قال: يروى عن الحسن البصري، فقال الحسن بن عمارة: حدثنا الحكم، عن يحيى بن الجزار، عن عليوحَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: قَالَ لِي شُعْبَةُ: ايتِ جَرِيرَ بْنَ حَازِمٍ، فَقُلْ لَهُ: لَا يَحِلُّ لَكَ أَنْ تَرْوِيَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، فَإِنَّهُ يَكْذِب، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُلْتُ لِشُعْبَةَ: وَكَيْفَ ذَاكَ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنَا عَنِ الْحَكَمِ بِأَشْيَاءَ لَمْ أَجِدْ لَهَا أَصْلًا، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بِأَيِّ شَيْءٍ؟ قَالَ: قُلْتُ لِلْحَكَمِ: أَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ؟ فَقَالَ: لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَيْهِمْ، وَدَفَنَهُمْ، قُلْتُ لِلْحَكَمِ: مَا تَقُولُ فِي أَوْلَادِ الزِّنَا؟ قَالَ: يُصَلَّى عَلَيْهِمْ، قُلْتُ: مِنْ حَدِيثِ مَنْ يُرْوَى؟ قَالَ: يُرْوَى عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، فَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ، عَنْ عَلِيٍّ
ابو داود نے بیان کیا، کہا: شعبہ نے مجھ سے کہا: جریر بن حازم کے پاس جاؤ اور اس سے کہو: تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم حسن بن عمارہ سے (حدیث) روایت کرو کیونکہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ابو داود نے کہا: میں نے شعبہ سے عرض کی: وہ کیسے؟ تو انہوں نے کہا: اس نے ہمیں حَکم سے (روایت کردہ) احادیث سنائیں جن کی ہم نے اصل نہ پائی۔ (کہا) میں نے عرض کی: کیا چیز روایت کی؟ کہا: میں نے حَکم سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کی نماز جنازہ ادا فرمائی؟ تو انہوں نے ج واب دیا: آپ نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی (جبکہ) حسن بن عمارہ نے حَکم ہی سے مِقسم کے حوالے سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور انہیں دفن کیا۔ (اسی طرح) میں نے حَکم سے پوچھا: آپ اولاد زنا کے بار ے میں کیا کہتے ہیں؟ کہا: ان کا جنازہ پڑھا جائے گا۔ میں نے پوچھا: یہ روایت کس حوالے سے بیان کی جاتی ہے، کہا: حضرت حسن بصری سے (جبکہ) حسن بن عمارہ نے کہا: ہم سے حَکم نے یحییٰ بن جزار کے حوالے سے یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کی۔
ابو داؤد ؒ کہتے ہیں مجھے شعبہؒ نے کہا: ”تم جریر بن حازمؓ کے پاس جاؤ اور ان سے کہو: آپ کے لیے حسن بن عمارہ سے روایت بیان کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔“ ابو داؤدؒ کہتے ہیں میں نے شعبہؒ سے پوچھا: یہ کیسے ہے؟ (آپ کو کیسے پتہ چلا ہے) اس نے جواب دیا: ”کہ حسن نے ہمیں حکمؒ سے چند احادیث سنائیں، جن کی مجھے کوئی اصل یا بنیاد نہیں ملی۔“ میں نے کہا: وہ کون سی حدیثیں ہیں؟ شعبہؒ نے کہا: ”میں نے حکم سے سوال کیا: کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھی ہے؟ حکم نے کہا: نہیں پڑھی۔ جب کہ حسن بن عمارہ، ابنِ عباسؓ کی حدیث بیان کرتا ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اوران کو دفن کیا۔ میں نے حکم سے دریافت کیا: آپ کا زنا کی اولاد کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ اس نے کہا: ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے۔ میں نے پوچھا: کس کی روایت ہے؟ اس نے کہا: حسن بصریؒ سے روایت ہے۔ جب کہ حسن بن عمارہ محدثینؒ کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے، اور حسن بن عمارہ یہ روایت حکمؒ کی سند سے حضرت علیؓ سے بیان کرتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (6469 و 10316 و 18782 و 18807)»
وحدثنا الحسن الحلواني، قال: سمعت يزيد بن هارون، وذكر زياد بن ميمون، فقال: حلفت، الا اروي عنه شيئا ولا عن خالد بن محدوج، وقال: لقيت زياد بن ميمون، فسالته عن حديث، فحدثني به، عن بكر المزني، ثم عدت إليه، فحدثني به، عن مورق، ثم عدت إليه، فحدثني به، عن الحسن، وكان ينسبهما إلى الكذب، قال الحلواني، سمعت عبد الصمد، وذكرت عنده زياد بن ميمون فنسبه إلى الكذب،وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ، وَذَكَرَ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، فَقَالَ: حَلَفْتُ، أَلَّا أروي عنه شيئا ولا عَنْ خَالِدِ بْنِ مَحْدُوجٍ، وَقَالَ: لَقِيتُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَدِيثٍ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنْ بَكْرٍ الْمُزَنِيِّ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنْ مُوَرِّقٍ، ثُمَّ عُدْتُ إِلَيْهِ، فَحَدَّثَنِي بِهِ، عَنِ الْحَسَنِ، وَكَانَ يَنْسُبُهُمَا إِلَى الْكَذِبِ، قَالَ الْحُلْوَانِيُّ، سَمِعْتُ عَبْدَ الصَّمَدِ، وَذَكَرْتُ عِنْدَهُ زِيَادَ بْنَ مَيْمُونٍ فَنَسَبَهُ إِلَى الْكَذِبِ،
۔ حسن حلوانی نے کہا: میں نے یزید بن ہارون سے سنا، انہوں نے زیاد بن میمون کا ذکر کرتے ہوئے کہا: میں نے حلف اٹھایا ہے کہ میں اس سے اور خالد بن محدوجد سے کبھی روایت نہ کروں گا (اور کہا:) میں زیاد بن میمون سے ملا، اس سے ایک حدیث سنانے کا کہا تو اس نے مجھے وہ حدیث بکرمزنی سے روایت کر کے سنائی، پھر (کچھ عرصے بعد) میں دوبارہ اس کے پاس گیا تو اس نے وہی حدیث مُوَرِّق سے بیان کی، پھر ایک بار اور اس کے پاس گیا تو اس نے وہی حدیث حسن (بصری) سے سنائی۔ وہ (یزید بن ہارون) ان دونوں (زیاد بن میمون اور خالد بن محدوج) کو جھوٹ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ حلوانی نے کہا: میں نے عبد الصمد سے حدیث سنی اور ان کے سامنے زیاد بن میمون کا ذکر کیا تو انہوں نے اس کی نسبت جھوٹ کی طرف کی
حسن حلوانیؒ کہتے ہیں، میں نے یزید بن ہارونؒ سے سنا، انہوں نے زیاد بن میمون کا ذکر کر کے کہا: ”میں نے قسم اٹھائی ہے کہ میں اس سے اور خالد بن محدوج سے کوئی روایت بیان نہیں کروں گا، کیونکہ میں زیاد بن میمون کو ملا، اور اس سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا، تو اس نے مجھے وہ بکر مزنیؒ سے سنائی، پھر میں نے اس کی طرف دوبارہ رجوع کیا، تو اس نے مجھے وہ مورق سے سنا دی، پھر میں اسے سہ بارہ ملا تو، اس نے مجھے وہ حسنؒ سے سنا دی، اور یزید بن ہارونؒ ان دونوں (زیاد، خالد) کو جھوٹا قرار دیتا تھا۔“ حلوانیؒ کہتے ہیں: میں نے عبدالصمدؒ کے پاس زیاد بن میمون کا ذکر کیا، تو اس نے کہا: وہ جھوٹا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (18980 و 19553)»