صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ قَسْمِ الْصَّدَقَاتِ وَذِكْرِ أَهْلِ سُهْمَانِهَا
زکوٰۃ کی تقسیم کے ابواب کا مجموعہ اور مستحقین کی زکوٰۃ کا بیان
1650. ‏(‏95‏)‏ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي إِعْطَاءِ الْإِمَامِ الْمُظَاهِرَ مِنَ الصَّدَقَةِ مَا يُكَفِّرُ بِهِ عَنْ ظِهَارَهِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ وَاجِدًا لِلْكَفَّارَةِ
جب ظہار کرنے والے شخص کے پاس کفّارے کے لئے مال موجود نہ ہو تو امام اسے کفّارہ ادا کرنے کے لئے زکوٰۃ کے مال سے دے سکتا ہے
حدیث نمبر: 2378
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، والحسن بن محمد الزعفراني ، ومحمد بن يحيى ، واحمد بن سعيد الدارمي ، واحمد بن الخليل ، قالوا: حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن عمرو بن عطاء ، عن سليمان بن يسار ، عن سلمة بن صخر الانصاري ، قال: كنت امرا قد اوتيت من جماع النساء ما لم يؤت غيري، فلما دخل رمضان تظاهرت من امراتي مخافة ان اصيب منها شيئا في بعض الليل، فاتتابع في ذلك، فلا استطيع ان انزع حتى يدركني الصبح، فبينا هي ذات ليلة تخدمني إذ تكشف لي منها شيء، فوثبت عليها، فلما اصبحت غدوت على قومي، فاخبرتهم خبري، فقلت: انطلقوا معي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلاخبره، قالوا: لا، والله لا نذهب معك نخاف ان ينزل فينا قرآن او يقول فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، مقالة يبقى علينا عارها، فاذهب انت واصنع ما بدا لك، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته خبري، قال:" انت بذاك؟" قال: انا بذاك، وهانا ذا فامض في حكم الله فإني صابر محتسب، قال: " اعتق رقبة"، فضربت صفحة رقبتي بيدي، فقلت: والذي بعثك بالحق ما اصبحت املك غيرها، قال:" صم شهرين متتابعين"، قال: قلت: يا رسول الله، وهل اصابني ما اصابني إلا في الصيام؟ قال:" اطعم ستين مسكينا"، قلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق، لقد بتنا ليلتنا هذه حشاء ما نجد عشاء، قال:" فانطلق إلى صاحب الصدقة، صدقة بني زريق، فمره فليدفعها إليك فاطعم منها وسقا ستين مسكينا، واستعن بسائرها على عيالك" , فاتيت قومي، فقلت: وجدت عندكم الضيق، قال ابو بكر: لم افهم عن الدورقي ما بعدها، وقال الآخرون: وجدت عندكم الضيق، وسوء الراي، ووجدت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم السعة والبركة، قد امر لي بصدقتكم فادفعوها إلي، قال: فدفعوها إلي، وقال بعضهم: حساءحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَالْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ الْخَلِيلِ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ امْرَأً قَدْ أُوتِيتُ مِنْ جِمَاعِ النِّسَاءِ مَا لَمْ يُؤْتَ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ تَظَاهَرْتُ مِنَ امْرَأَتِي مَخَافَةَ أَنْ أُصِيبَ مِنْهَا شَيْئًا فِي بَعْضِ اللَّيْلِ، فَأَتَتَابَعُ فِي ذَلِكَ، فَلا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَنْزِعَ حَتَّى يُدْرِكَنِي الصُّبْحُ، فَبَيْنَا هِيَ ذَاتُ لَيْلَةٍ تَخْدُمُنِي إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى قَوْمِي، فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي، فَقُلْتُ: انْطَلِقُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلأُخْبِرُهُ، قَالُوا: لا، وَاللَّهِ لا نَذْهَبُ مَعَكَ نَخَافُ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا قُرْآنٌ أَوْ يَقُولُ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَقَالَةً يَبْقَى عَلَيْنَا عَارُهَا، فَاذْهَبْ أَنْتَ وَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِي، قَالَ:" أَنْتَ بِذَاكَ؟" قَالَ: أَنَا بِذَاكَ، وَهَأَنَا ذَا فَأَمْضِ فِيَّ حُكْمَ اللَّهِ فَإِنِّي صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ، قَالَ: " اعْتِقْ رَقَبَةً"، فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي بِيَدِي، فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَصْبَحْتُ أَمْلِكُ غَيْرَهَا، قَالَ:" صُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي إِلا فِي الصِّيَامِ؟ قَالَ:" أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ حَشَاءً مَا نَجِدُ عَشَاءً، قَالَ:" فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ الصَّدَقَةِ، صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ، فَمُرْهُ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ فَأَطْعِمْ مِنْهَا وَسْقًا سِتِّينَ مِسْكِينًا، وَاسْتَعِنْ بِسَائِرِهَا عَلَى عِيَالِكَ" , فَأَتَيْتُ قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: لَمْ أَفْهَمْ عَنِ الدَّوْرَقِيِّ مَا بَعْدَهَا، وَقَالَ الآخَرُونَ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ، وَسُوءَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَالْبَرَكَةَ، قَدْ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ فَادْفَعُوهَا إِلَيَّ، قَالَ: فَدَفَعُوهَا إِلَيَّ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: حَسَاءً
سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے عورتوں سے جماع کرنے کی جتنی قوت ملی تھی کسی اور کو حاصل نہ تھی۔ جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اپنی بیوی سے ظہار کرلیا، اس ڈرسے کہیں رمضان المبارک کی کسی رات اس سے ہمبستری نہ کرنے لگ جاؤں، پھر اس کام میں مسلسل لگا رہوں حتّیٰ کہ صبح ہوجائے اور میں فارغ ہی نہ ہوسکوں۔ پھر اس درمیان کہ ایک رات وہ میری خدمت کررہی تھی جب اس کے جسم کا کوئی حصّہ میرے سامنے کھل گیا (تو میں خود پر قابو نہ پاسکا، اس لئے) کود کراس پر سوار ہوگیا۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس گیا اور اپنی کار گزاری انہیں بتائی۔ میں نے اُن سے گزارش کی کہ تم میرے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنی خبر بتا سکوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اللہ کی قسم ہم تمہارے ساتھ نہیں جائیںگے ہم تو اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں ہمارے بارے میں قرآن نہ نازل ہو جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس کی عار و شرمندگی ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے۔ اس لئے تم خود ہی جاؤ اور جو تمہارے جی میں آئے کر گزرو۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی کارگزاری بتادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا واقعی تم نے ایسا ہی کیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ جی ہاں، ایسے ہی کیا ہے اور میں اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں آپ مجھ پر اللہ کا حُکم نافذ کریں، میں بڑے صبر کے ساتھ ثواب کی نیت سے سزا برداشت کروںگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک غلام آزاد کرو۔ میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مارکر کہا کہ جس ذات نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے، میں اس گردن کے سوا کسی کا مالک نہیں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو ماہ کے مسلسل روزے رکھو۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، میں نے اس غلطی کا ارتکاب رمضان ہی میں تو کیا ہے۔ (مزید روزے کیسے رکھ سکوںگا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ساٹھ مساکین کا کھانا دو۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ہم نے آج رات بھوکے گزاری ہے ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ بنی زریق کی زکوٰۃ کے تحصیلدار کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ بنی زریق کی زکوٰۃ تمہیں دے دے۔ اس میں سے ایک وسق ساٹھ مساکین کو کھلادو اور باقی سارامال اپنے گھر والوں پر خرچ کرلو۔ پھر میں اپنی قوم کے پاس آیا تو میں نے کہا کہ میں نے تمہارے اندر تنگ دلی اور تنگ نظری پائی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس کے بعد دورقی کی روایت کو میں سمجھ نہیں سکا۔ دیگر راویوں نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ میں نے تمہارے پاس تنگ دلی اور بری رائے کو پایا ہے جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فراخی اور برکت پائی ہے۔ آپ نے مجھے تمہاری زکوٰۃ وصول کرنے کا حُکم دیا ہے لہٰذا تم وہ میرے حوالے کردو۔ فرماتے ہیں کہ تو اُنہوں نے اپنی زکوٰۃ میرے حوالے کردی۔ بعض راویوں نے عشاء (رات کا کھانا) کی بجائے حساء (شوربہ) کا لفظ روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.